اس قدر غصہ بہتر نہیں

462

انتخابات سر پر ہیں اور بلوچ مارچ نگران حکومت کی کمر پر کوڑا بن کر برسا ہے، وجہ کیا ہے؟ ایک بلوچستان ہی نہیں، ملک کا ہر صوبہ اور ہر شہر کسی نہ کسی حد تک مسائل کا شکار ہے اور یہ مسائل سب کے اپنے اپنے اور الگ الگ ہیں، ان سب میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے نا انصافی اور عدل کے نظام کی کمزوری، لوگوں کو زندگی کا تحفظ دینا حکومت کی ذمے داری ہے اور یہ ضمانت آئین نے دے رکھی ہے، ان دنوں اسلام آباد میں جہاں بلوچ یک جہتی مارچ کا شور ہے وہیں بھٹو ریفرنس کا بھی چرچا ہے، بھٹو ریفرنس کیا ہے؟ پیپلزپارٹی کا خیال ہے اسے انصاف نہیں ملا، لیکن بھٹو کیس کا فیصلہ پڑھ لیا جائے تو بنیادی بات اور نکتہ یہ ملے گا کہ بھٹو حکومت ایک شخص (نواب محمد احمد خان قتل کیس) کی زندگی بچانے میں ناکام رہی اسی لیے عدالت نے بھٹو صاحب کو بھی سزا سنائی، اہم نکتہ یہ ہے کہ حکومت ہر شہری کی جان و مال، زندگی کی حفاظت کرنے کی ذمے دار ہے، اب بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے؟ بلوچستان کے معاملے کے علاوہ کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جو پاکستان میں کسی کی سیاسی پوزیشن کو واضح کرتا ہو تربت سے اسلام آباد جانے والے پُرامن، غیر مسلح مظاہرین کے ایک قافلے کو وفاقی دارالحکومت میں داخلے سے جبری طور پر روک دیا گیا۔ چند ہفتوں میں، بلوچ لانگ مارچ نے حقیقتاً ایک ہلچل پیدا کی ہے نوجوان خواتین کی قیادت میں یہ قافلہ بلوچستان سے نکلا اور سرائیکی بیلٹ کے بعد، پختون اور پنجابی علاقوں سے گزرتے ہوئے اسلام آباد پہنچا، اس کے مطالبات ہیں کہ جبری گمشدگیوں کا کھیل ختم ہونا چاہیے اور ان لوگوں کا احتساب ہو جو اس میں ملوث ہیں۔

جس وقت لانگ مارچ جاری تھا اس وقت مرکزی دھارے کی جماعتیں بلوچستان میں ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی اصطبل خریدنے میں مصروف تھیں اسی موسم میں سرفراز بگٹی نے نگران وزارت داخلہ چھوڑی اور پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ نگران وزیراعظم کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے، 1971 میں کیا ہوا تھا، بھارت، امریکا اور پاکستان دشمن قوتوں نے کن حالات سے فائدہ اٹھایا تھا؟ ذرا یاد کریں، تاریخ سے کچھ سبق سیکھا جائے، رواں ہفتے اسلام آباد میں بلوچ یک جہتی مارچ کے کچھ مناظر ایسے ہیں جنہیں فراموش کرنا آسان نہیں ہے، مارچ کرنے والوں کا مطالبہ تھا کہ انہیں وفاقی دارالحکومت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے اور انہیں اپنی بات کہنے دی جائے اور ان کی بات سنی جائے نوجوان خواتین اور مائیں صرف یہ کہہ رہی تھیں کہ انہیں پرامن احتجاجی کیمپ میں جانے کی اجازت دی جائے، ان پر لاٹھی چارج نہیں ہونا چاہیے تھا، ان پر واٹر کینن کا استعمال نہیں ہونا چاہیے تھا اور پولیس وین میں نہیں ڈالنا چاہیے تھا، مگر ان کے ساتھ تلخیوں اور جبر کا سامان کس نے کیا؟ اسلام آباد داخلے پر لانگ مارچ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے اس مارچ کے راستے میں ہونے والے اظہارِ یکجہتی کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے احتساب ہونا چاہیے ہر اس شخص کا جس نے یہ کام کیا، وہ سیاست دان نہیں کریں گے جو اس کے ساتھ مل کر رہنا چاہتے ہیں۔ واحد امید یہی ہے کہ تمام ترقی پسند اور وہ عام لوگ جو گمشدگیوں اور ’انکاؤنٹر، کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں سے اپنی نفرت کے اظہار کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں، یہ تسلیم کرلیں کہ یہ جدو جہد شاید اب بھی ایک منصفانہ اور جمہوری مستقبل کی طرف لے جائے۔

ایک جانب یہ منظر اب دوسری طرف بھی دیکھیں کیا منظر ہے؟ معروف برطانوی اخبار سٹی اے ایم میں غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے پر خصوصی اشاعت میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا اسٹرٹیجک محل وقوع اسے عالمی گیس کوریڈور کے طور پر مثالی حیثیت مہیا کرتا ہے۔ سٹی اے ایم، لندن میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والا اقتصادی اخبار ہے، برطانوی اخبار نے اشاعت میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے خصوصی موقعوں پر روشنی ڈالی ہے، اس میں بتایا گیا کہ پاکستان دنیا کی پانچویں بڑی آبادی ہونے کے ساتھ ایک منفرد جیو اسٹرٹیجک محل وقوع رکھتا ہے، پاکستان کی 4.8 ٹریلین پاؤنڈ کی معدنی دولت غیرملکی سرمایہ کاروں کو تیزی سے راغب کر رہی ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری کونسل کا آئندہ 5 سال میں 48 ارب پاؤنڈ سرمایہ کاری لانے کا ہدف ہے، ریکوڈک پر سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کئی ملکوں کی سرمایہ کاری کے لیے موزوں ہیں، وافر معدنی وسائل میں کوئلہ، نمک، لیتھیم، ریئرارتھ، نکل، یاقوت، کرومائیٹ اور زمرد شامل ہیں۔ اس کے مطابق حکومت پاکستان 2031 تک قابل تجدید توانائی کو دگنا کرنے کے لیے بھی پر عزم ہے۔ غیرملکی سرمایہ کار زراعت میں کارپوریٹ فارمنگ انٹرپرائزز کے 100 فی صد مالک ہوسکتے ہیں، 57 فی صد نوجوان اور سالانہ 25 ہزار آئی ٹی گریجویٹ پاکستان کی عالمی سرمایہ کاری کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ اب سمجھ جائیں کہ جھگڑا کیا ہے؟