ہمارے پروفسیر غفور احمد

434

26 دسمبر 2012ء کو ہمارے مربی، راہنماء، پاکستان کے ہمدرد، محب وطن اور اسلام کے شیدائی، عاشق رسول جناب پروفیسر غفور احمد ایک بھر پور ذاتی، سماجی، تنظیمی اور سیاسی زندگی گزار کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے، پروفیسر صاحب سے پہلی ملاقات غالباً 1979 میں ہوئی جب وہ لاہور بار سے خطاب کے لیے لاہور تشریف لائے، ملک میں اس وقت سیاسی سرگرمیاں تو نہیں تھیں، بھٹو کو قتل کے الزام میں عدالت عظمیٰ کے حکم پر پھانسی ہوچکی تھی یوں سیاست میں قدرے نہیں کافی حد تک تلخی تھی لیکن چونکہ ملک میں مارشل لا تھا لہٰذا سیاست کا دھارا بھی متعین نہیں تھا، ملک میں جو سیاسی گروہ بھٹو کا ہامی تھا، وہ تلخی کے باوجود خاموش تھا، پروفیسر صاحب جب 2003 سینیٹر بنے، ان کے سینیٹر بننے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ یہ کہانی ان کی سیاسی کریڈیبلٹی کی بھی کہانی ہے۔

2002 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ق) سادہ اکثریت سے قومی اسمبلی میں پہنچی، صوبائی اسمبلی میں بھی اسی کی اکثریت تھی، لیکن اس وقت مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین نے متحدہ مجلس عمل کی قیادت سے درخواست کی کہ مسلم لیگ (ق) اپنے ٹکٹ پر پروفیسر غفور احمد کو سینیٹ کا رکن بنانا چاہتی ہے اور کہا کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہماری ٹکٹ پر معتبر سیاست دان سینیٹ میں پہنچیں، یوں پروفیسر صاحب سینیٹ کے رکن بنے تاہم وہ سینیٹ میں متحدہ مجلس عمل کی پالیسی اور فیصلوں کے مکمل تابع رہے اور سینیٹ میں بھی وہ متحدہ مجلس کی نشستوں پر رہے۔ جب سینیٹ بنی تو مولانا شاہ احمد نورانی قائد ایوان بنے، تاہم زندگی نے وفا نہیں کی اور مولانا کچھ ہی ہفتوں کے بعد انتقال کرگئے، جس کے بعد وسیم سجاد قائد ایوان بنے اور محمد میاں سومرو چیئرمین سینیٹ بنے، جناب پروفیسر غفور احمد اپنی پوری زندگی میں متحرک رہے، پارلیمنٹ ہائوس کے سینیٹ فلور پر اس وقت کے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے 1977 میں ہونے والے بھٹو اور پاکستان قومی اتحاد کے مذاکرات کی اس طرح تصویر کشی کر رکھی ہے کہ بھٹو، کوثر نیازی اور عبد الحفیظ پیرزادہ دوسری جانب مولانا مفتی محمود، نواب زادہ نصراللہ خان اور پروفیسر غفور احمد کے مجسمے دکھائے گئے ہیں، اس گیلری کا وزٹ کرنے والے سیاسی کارکن، طلبہ اور دیگر افراد ملک کی سیاسی تاریخ کے اس اہم باب سے متعلق معلومات حاصل کرتے رہتے ہیں۔

پروفیسر صاحب زندگی بھر دوست و دشمن کے تعلق سے بالاتر ہو کر انہوں نے لوگوں کے ساتھ، دوستوں اور واقف کاروں کے ساتھ سماجی تعلق رکھا، سب کا دکھ بانٹتے رہے اور اپنی بساط کے مطابق دوسروں کے درد کا مداوا کرتے رہے ، وہ صحیح معنوں میں عاشق رسول تھے، انہیں اسی سبب اللہ نے زندگی میں عزت جیسی نعمت عظیم سے سرفراز فرمایا محترم پروفیسر صاحب کو ہم سے بچھڑے دس برس سے زائد وقت ہو رہے ہیں، وہ اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں، اپنے چاہنے والوں کے دلوں پر ان کی یادوں کے نقش بہت گہرے ہیں لہٰذا ان کی وفات کا غم بھی تازہ ہے اور زخم بھی ابھی نہیں بھرا، پروفیسر صاحب کی اپنے کاموں میں لگن کا عالم یہ تھا کہ ہر وقت کام اور بس کام والی کیفیت رہی وہ بے پناہ مصروف رہتے تھے اور ایک بے لوث، مخلص اور متحرک سیاسی کارکن کی طرح، گھر سے باہر رہنے کے باوجود ذاتی زندگی میں کبھی بے ترتیب ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیے وہ ایک بے لوث سیاسی کارکن بھی تھے اپنے گھر والوں کے لیے ایک ذمے دار شفیق باپ بھی، وہ دھیمے مزاج کے ہنس مُکھ انسان تھے، دوستوں کی محفل کی جان تھے۔ اُنہوں نے ملک کے سیاسی مدو جذر کا قریبی مطالعہ کیا اور بھرپور حصہ بھی لیا۔ ایوب خان کا دور ہو یا، بھٹو کا، جونیجو یا نواز شریف اور بے نظیر بھٹو، حتی کہ پرویز مشرف کا دور، وہ ایک بھرپور سیاسی کردار کے حامل سیاسی کارکن تھے ان کا شمار عالمی ماہرین سیاست میں ہوتا تھا اللہ اُن کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔