مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور حامد میر کے انکشافات (5)

770

آخری قسط

ایک انڈین بنگال کی رائٹر ہیں ان کا نام ہے سرمیلا بھوس ان کی کتاب ہے Dead Reckoning اس میں انہوں نے بنگلا دیش کے حکومت کے جو دعوے ہیں کہ تقریباً تیس لاکھ بنگالیوں کو پاکستانی فوج نے قتل کردیا اور لاکھوں خواتین کا جنسی استحصال کیا گیا انہوں نے اس بات کی نفی کی ہے اور کہا کہ یہ اتنا زیادہ نہیں ہوا اور ایک پاکستانی اسکالر ہیں ڈاکٹر جنید احمد صاحب انہوں نے بھی ان دعوئوں کو غلط قرار دیا ہے لیکن کچھ نہ کچھ ہوا تو ہے ناں! میں نے خود بنگلا دیش میں کئی بار دورہ کیا ہے اور میں ایسے لوگوں سے ملا بھی ہوں جن کو وار بے بیز کہا جاتا ہے اب میں اس کی مزید تفیصل میں نہیں جاتا لیکن یہ ہے کہ میں ایسی خواتین سے ملا ہوں کہ جنہوں نے شکایت کی کہ ان کا جنسی استحصال کیا گیا۔ ان کی تعداد ہوسکتا ہے کہ لاکھوں میں نہ ہو لیکن وہ سب کچھ ہوا بالکل ہوا اور وہ سارا کچھ جو ہے وہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں بھی موجود ہے۔ اب یہ وہ رپورٹ ہے جو حکومت پاکستان نے خود ایک انکوائری کمیشن بنایا اور یہ رپورٹ تشکیل پائی۔ کئی سال تک تو یہ رپورٹ ہی سامنے نہیں آئی اور پھر جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں یہ رپورٹ ریلیز کی گئی۔ بڑی جامع رپورٹ ہے جس میں سب کچھا چٹھا موجود ہے کہ جو جو زیادتیاں ہوئیں ان کی تفصیل میں البتہ نہیں گئے لیکن لکھا ضرور گیا ہے۔ صرف ان کی چیدہ چیدہ چیزیں ذکر کردیتا ہوں کہ انہوں نے بھی اس چیز کی تصدیق کی ہے کہ جنرل حمید عبداللہ خان نیازی کو سرینڈر کا نہیں کہا گیا تھا بلکہ سیز فائر کا کہا گیا تھا لیکن چونکہ وہ ایک ڈرپوک آدمی تھا اس نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے سرینڈر کردیا اور اس بارے میں ثبوت کے طور پر میرے پاس ایک کتاب ہے جو ہے فیلڈ مارشل سیم مانک شاہ یہ انڈین فوج کے1971میں سربراہ تھے۔ دراصل یہ کتاب ان کی بائیوگرافی ہے جو دو لوگوں نے مل کر لکھی ہے اور اس میں یہ سرینڈر ڈاکومنٹ موجود ہے جس پر جنرل نیازی اور جنرل جگ جیت سنگھ اروڑا کے دستخط موجود ہے اور اس میں یہ کہا گیا ہے کہ

The Pakistan eastern command will come under the order of the Lieutenant General Jagjeet Singh Arora as soon as this instrument has been sign.

اور اس میں بھی انہوں نے بھی یہی کہا ہے کہ ہم نے پریشرائز کیا جنرل نیازی کو اور دبائو میں آکر وہ راضی ہوگیا سرینڈر پر اور ان کا بھی یہی خیال تھا کہ وہ سیز فائز کرے گا سرینڈر نہیں کر ے گا کیونکہ وہاں پر جو پاکستانی پیرا ملٹری ٹروپس وہ تیس ہزار سے بھی زیادہ بھی تھے اور انڈین آرمی ڈھاکہ سے بہت دور تھی اور اتنی بڑی تعداد میں موجود نہیں تھی۔ اسی طرح حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ

If General Niyazi had done so and lost his life in the process, He would made history and would have been remembered by coming generations as a great hero as a great martyr.

اگر وہ سرینڈر نہ کرتا اور وہیں پر لڑتا رہتا تو یا بہت ایک بہت بڑا غازی ہوتا یا ایسا شہید ہوتا کہ جس کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جاتا۔ اور پھر اس میں ایک اور بھی ہے جس کا پہلے بھی میں نے ذکر کیا ہے کہ اخلاقی کمزوریاں ہیں وہاں پر جو لوگ تھے۔

A part of the international and military factors and important calls for the defeat of the Pakistan army in 1971 war was the lack of the moral character and courage in the senior army commanders.

ایک اور چیز جو میں آپ کو اس رپورٹ میں سے بتانا چاہتا ہوں صرف ایسٹ پاکستان ہی نہیں بلکہ ویسٹ پاکستان میں بھی جگہ جگہ پر سرینڈر ہوا۔ ایک تھے لیفٹیننٹ جنرل ارشاد احمد خان۔ حمود الرحمن کمیشن نے کہا کہ

That lieutenant General Irsahd Ahmad Khan former commander one core be tried for criminal and willfull for neglect of duty in conducting the operation of his core in such a manner that nearly five hundred villages of the Shaker Gar the tehsil of Sialkot District of west Pakistan wer surrender to the enamy without a fight and the army offensive in the south was seriously jeopardized.

قصہ مختصر یہ کہ میرے پاس اور بھی بہت سی چیزیں ہیں مگر ٹائم اتنا زیادہ نہیں ہے۔ کچھ سبق ہمیں سیکھنے چاہئیں اور وہ سبق یہ ہیں کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی روشنی میں کہ جو فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے۔ جو فوج سیاست زدہ ہوجاتی ہے وہ لڑنے کے قابل نہیں رہتی یہ بہت ہی واضح طور پر اس رپورٹ میں لکھا ہے یہ ہے 16 دسمبر 1971 کا سب سے بڑا سبق اور وہ لوگ جو اس قسم کے معاملات میں فوج کے سہولت کار بن جاتے ہیں جیسا کہ 1971 کون کون تھے سہولت کار البدر، الشمس ہمارے بہت سے بہاری بہن بھائی وہ اس وقت فوج کے آپریشن کا ساتھ دے رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب، جماعت اسلامی اور بہت سے لوگ کیا ہوا ان کے ساتھ بعد میں؟ وہ بہاری جنہوں نے 1971میں ایسٹ پاکستان میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا آج بھی ڈھاکہ اور میرپور کے علاوہ کئی جو بنگلا دیش کے مہاجر کیمپ ہیں وہاں پر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ نے پاکستان میں جگہ جگہ اتنی بڑی ہائوسنگ اسکیمیں بنائی ہیں۔ اتنی بڑی بڑی ڈیفنس ہائوسنگ اسکیمیں بنائی ہیں آپ نے کبھی ان کے بارے میں نہیں سوچا کہ جنہوں نے پاکستان کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا وہ ابھی بھی وہاں کیمپوں میں پڑے ہیں۔ سردی میں بھی مرتے ہیں اور گرمی میں بھی مرتے ہیںآپ ان کو نہیں لاسکتے ؟ آپ کو انہیں لانا چاہیے مگر آپ نہیں

لے کر آئے۔ جماعت اسلامی جس نے ساتھ دیا پاکستانی فوج کا آج دیکھیں اس کا کیا موقف ہے؟۔ بھٹو صاحب جنہوں نے پاکستانی فوج کا ساتھ دیا اور جنگی قیدی چھڑائے، ویسٹ پاکستان میں ہزاروں کلو میٹر کاعلاقہ واپس لیا ان کو جنرل ضیاء الحق نے پھانسی پر لٹکا دیا اور 16 دسمبر کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ 1956کا آئین اگر نہ توڑا جاتا تو پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا۔ شیخ مجیب الرحمن 1970کے الیکشن میں بھی 1956کے آئین کی بات کرتا رہا، تو آپ نے 1956کا آئین توڑا پاکستان ٹوٹ گیا اب آپ 1973 کا آئین بھی توڑنا چاہتے ہیں۔ آپ نے کئی دفعہ توڑا مگر وہ ری اسٹور ہوجاتا ہے۔ پھر توڑتے ہیں وہ پھر ری اسٹور ہوجاتا ہے۔ 1973کا آئین ہمیشہ ہی ہمیں خطرے میں نظر آتا ہے تو سبق سیکھنا چاہیے کہ ہمیں کہ اگر 1956کو توڑنے کا نتیجہ 16دسمبر 1971میں پاکستان ٹوٹنے کی صورت میں آپ کے سامنے آیا تھا تو بار بار 1973کے آئین کی بے حرمتی نہ کریں، اس کو بار بار مت توڑیں۔ اور جو دلی معاہدہ تھا جس کے تحت آپ نے اپنے جنگی قیدی انڈیا کی قید سے آزاد کروائے، جس کے تحت آپ نے بنگلا دیش کو تسلیم کیا اس میں آپ نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ آپ نے بنگالیوں سے معافی مانگی ہے۔ آپ نے وہ معافی باقاعدہ طور پر آج تک نہیں مانگی۔ بنگالیوں سے معافی مانگنے سے زیادہ ضروری ہے کہ آپ اپنے آپ سے معافی مانگیں، اپنی پاکستانی قوم کو بتائیں کہ ہم سے یہ یہ بلنڈرز ہوئے۔ ہم سب کو آپس میں ایک دوسرے سے یہ بات کرنی چاہیے۔ اس پر بحث کرنی چاہیے کہ 16دسمبر 1971کو جو قائد اعظم کا پاکستان ٹوٹا تو ٹھیک ہے انڈین آرمی نے بھی مداخلت کی۔ شیخ مجیب الرحمن بھی پاکستان کے خلاف کھڑا ہوگیا وہ ساری باتیں درست ہیں لیکن اصل میں تو 1962 میں جنرل ایوب خان اور جسٹس منیر نے جو منصوبہ بنایا تھا وہ تھا پاکستان توڑنے کا منصوبہ جو 1962میں بنایا گیا اور 16دسمبر 1971کا واقعہ تو اس کے کئی سال کے بعد ہوا۔

اگر احتساب کا عمل ہوتا16دسمبر 1971کے واقعہ کا تو 5اگست 2019 کو انڈیا کشمیر پر قبضہ نہ کرتا۔ 5 اگست 2019کو کیا ہوا ہے؟ آپ کو اچھی طرح پتا ہے۔ اب انڈیا نے کشمیر مکمل طور پر قبضہ کرلیا ہے۔ دعا کریں کہ 16دسمبر 1971اور 5اگست 2019 جیسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔

میں نے 5 اگست 2019 کی بات اس لیے کی ہے کہ اس کے بعد پاکستان میں بڑا یہ کہا گیا کہ انڈیا نے عالمی قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور کشمیر پر قبضہ کرلیا ہے لیکن اس کے کچھ ہی مہینوں کے بعد آپ نے لائن آف کنٹرول پر انڈیا کے ساتھ سیز فائر معاہدہ کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ایک دفعہ پھر سرینڈر کردیا اور یہ وہ معاملات ہیں کہ جن کی انکوائری ہونی چاہیے، احتساب ہونا چاہیے۔

16دسمبر 1971کی تو شاید نہیں ہوسکتی مگر 5 اگست 2019کی تو ہوسکتی ہے۔