پس ِ آئینہ

441

پس ِ آئینہ کا منظر دکھانے کے لیے نورا کْشتی کے محاورے کا سہارا لیا جاتا ہے مگر اب یہ محاورہ متروک ہوتا جا رہا ہے لوگ نورا کْشتی کے بجائے سیاسی کْشتی کہنے لگے ہیں۔ بلاول زرداری اپنے والد ِ محترم سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری کو ہاتھی کا پاؤں کہتے ہیں جو اپنے پاؤں کے نیچے سب کو دبائے رکھتا ہے مگر زرداری صاحب بلاول کو سیاسی رنگروٹ کہتے ہیں۔ ان کے کہنے کے مطابق بلاول ابھی نا سمجھ ہے اْسے تربیت کی ضرورت ہے میرے سہارے کی ضرورت ہے اْن کی پیش گوئی ہے کہ پاکستان کا اگلا وزیر ِ اعظم بلاول ہوگا اگر باپ بیٹے کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو وہ یکساں سوچ کے حامل دکھائی دیتے ہیں اور کبھی کبھی ایک دوسرے کے مخالف دکھائی دیتے ہیں۔

شیخ رشید کہا کرتے تھے کہ سیاست کرنے کے لیے آصف علی زرداری کے حضور زانوئے تلمذ طے کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ زرداری سیاسی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتے ہیں مگر زرداری صاحب جو کچھ بلاول کے بارے میں کہتے ہیں وہ اْن کی سیاسی درس گاہ پر کئی سوالات کھڑے کرتا ہے۔ بلاول زرداری کی عمر 35 برس ہے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ پانچ سال بعد جوانی کی حد سے نکل کر ادھیڑ عمری کی حد میں داخل ہوجائیں گے اس تناظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص 35 برس کی عمر میں بھی دوسروں کی رہنمائی کا محتاج ہو وہ قوم کی رہنمائی کیسے کرسکتا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ ایک زیر ِ تربیت بندے کو ملک کا وزیر ِ خارجہ کیوں اور کیسے بنایا گیا؟ ویسے اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ بلاول زرداری کو وزیر ِ خارجہ بنانے کا مقصد تربیت دینا ہو۔ پہلے پاکستان کو طرزِ حکمرانی کی تجربہ گاہ بنایا گیا اور اب حکمرانی کی تجربہ گاہ بنایا جارہا ہے۔

بلاول زرداری کہتے ہیں کہ اْنہیں وزیر ِ اعظم نہ بنایا گیا تو دھرنا دیں گے جس کا نقصان ملک اور قوم کو ہوگا۔ آصف علی زرداری کے بیان کی تصدیق کرتا ہے کہ بلاول زرداری واقعی بچہ ہے کیونکہ کوئی بھی باشعور اور ہوش مند شخص ایسا بیان نہیں دے سکتا۔ موصوف نے اعتراف کیا ہے کہ اْن کا دھرنا معیشت اور ملک کے استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگا کوئی بھی شخص خواہ خاص ہو یا عام ملک و قوم کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس پس منظر میں یہ سوچنا غلط نہ ہوگا کہ بلاول زرداری کو وزیر ِ خارجہ کیوں بنایا گیا تھا؟ اور کس نے یہ تجویز پیش کی تھی اور اب اْنہیں وزیر ِ اعظم بنانے کی تگ و دو کون کررہا ہے؟ اور اس کا مقصد کیا ہے؟ کسی بھی رنگروٹ کو فوجی قیادت نہیں سونپی جا سکتی۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی بھی چھوٹی جماعت کے طالب علم کو کسی بھی یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنایا گیا ہو؟ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے وقت سے پہلے کوئی بھی کام کیا جائے تو وہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ ملک میں ستر برسوں سے ایک مکروہ کھیل کھیلا جارہا ہے میاں صاحب سے استفسار کیا جاسکتا ہے کہ آپ بھی اس مکروہ کھیل کے کھلاڑی ہیں۔ کھیل کے دوران آپ کو یہ احساس کیوں نہ ہوا کہ وہ ایک مکروہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ مگر جب میدان سے باہر ہوئے تو دھڑلے کے ساتھ اعلان کررہے ہیں کہ پاکستان میں حکمرانی ایک مکروہ کھیل ہے۔ یہاں یہ سوال کرنے کی جسارت تو کی جاسکتی ہے کہ اس مکروہ کھیل کے کھلاڑیوں کو کیا سزادی جائے؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب اس مکروہ کھیل کے کھلاڑی بننے کی جدوجہد کیوں کر رہے ہیں؟

یادشت بخیر! جب میاں نواز شریف کو سزائیں دی گئیں تو عزت مآب چیف جسٹس پاکستان جو اْس وقت جسٹس تھے اْن کے ردِ عمل کے پیشِ نظر ہم نے کہا تھا کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر ِ اعظم بنا دیے جائیں گے کیونکہ محترم فائز عیسیٰ متوقع چیف جسٹس تھے وہ ان سزاؤں کو ختم کرسکتے ہیں مگر اْن کی وزاتِ عظمیٰ عدلیہ کو عظمیٰ بیگم بنانے کا سبب بن سکتی ہے جو ایک خطرناک عمل ہوگا۔ میاں نواز شریف خود ساختہ جلا وطنی کے بعد واپس آگئے ہیں کہا جارہا ہے کہ اْن کی واپسی وزارتِ عظمیٰ کی واپسی سے مشروط ہے۔ اْنہیں یہ یقین دلایا گیا ہے کہ تمہاری سزائیں ختم کردی جائیں گی اور چوتھی بار وزیر ِ اعظم بننے کا موقع بھی دیا جائے گا اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر ِ اعظم بن کر کیا کارنامہ سر انجام دیں گے؟ ویسے اس کا جواب ایسا مشکل نہیں جس کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے ان کے پہلے تین دورے حکومت کا تجزیہ کر لیا جائے تو واضح ہوگا کہ چوتھی بار وزراتِ عظمیٰ پہلی تین وزارتِ عظمیٰ کا تسلسل ہی ہوگی۔ اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ مجھے کیوں نکالا کے بعد مجھے کیوں بْلایا اْن کا نیا بیانیہ بن جائے۔