کیسے بھول جائیں؟؟

437

16 دسمبر1971 کا قیامت خیز دن اہل پاکستان اور پاکستان کے ساتھ محبت کرنے والے کبھی نہیں بھول سکتے کیونکہ اس دن پاکستان دو لخت ہوا اپنوں کی سیاہ کاریوں اور مکار بدنیت دشمن کے ظالمانہ کردار کی وجہ سے اگر ہم سقوط مشرقی پاکستان پر نظر ڈالیں تو پہلے تحریک وقیام پاکستان کے بیانیے کو سامنے رکھنا ہوگا کیوںکہ ہندوستان کثیر القومی کثیر اللسانی اور متضاد مختلف ثقافتوں کا مجموعہ تھا ہزاروں سال ہندوستان میں آباد ہونے اور سیکڑوں سال حکومت کرنے کے باوجود تعداد میں ہندوؤں سے کم تھے انگریزی دور اقتدار میں وہ اقلیت کے حساب سے حقوقِ کا مطالبہ کرتے تھے مگر عظیم فلسفی اور شاعر علامہ اقبال نے پہلے پہل یہ مسئلہ اٹھایا کہ مسلمان اقلیت نہیں بلکہ بعض صوبوں میں اکثریتی آبادی رکھتے ہیں لہٰذا بنگال سرحد، پنجاب، سندھ، بلوچستان کے صوبوں پر مشتمل اسلامی ریاست قائم کی جائے اس ریاست کا نام پاکستان رکھا گیا اس کی بنیاد ایمان، اتحاد، تنظیم، عدل اجتماعی، اخوت، رواداری، اور خود مختاری پر رکھی گئی۔ بنگال جو مشرقی پاکستان کہلایا اس کا فاصلہ مغربی پاکستان سے ایک ہزار میل تھا اور سمندری یا زمینی راستے سے رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا صرف ہوائی راستہ موجود تھا مگر نظریہ اسلام اور ایمان نے اس کے باسیوں کو مغربی پاکستان کے ساتھ کھڑے کردیا تھا لیکن حکمرانوں کی مفاد پرستی دیکھیے کہ انہوں نے 1960 سے ہی ان بنیادی اصولوں کی نفی کرتے ہوئے پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کی کوشش شروع کردی اس پر مستزاد یہ کہ مشرقی پاکستانیوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دیکر ناجائزو ناروا پابندیوں وشرائط کے ذریعے ان پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کردیے۔ صوبائی مختاری دینے سے انکار کردیا حالانکہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی تقاریر میں صوبائی خود مختاری کا واضح اعلان کیا تھا اور قراد مقاصد کی شق نمبر 6 میں درج ہے پاکستان ایک وفاقی ریاست ہو گی اور آئین میں متعین کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے صوبوں کو خود مختاری حاصل ہوگی۔

مشرقی پاکستان کے لوگوں کو انصاف فراہم کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا حالانکہ عدل و انصاف اسلامی نظام کا بنیادی عنصر ہے جو معاشرے کے افراد کو باہم شیر و شکر رکھتا ہے یقینا کوئی معاشرہ عدل کے بغیر نہیں چل سکتا اسلام کا عدالتی نظام تمام قوموں اور ملتوں کے بنیادی حقوقِ کی ضمانت دیتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے، اے ایمان والو! انصاف کے لیے اللہ تعالیٰ کے گواہ بن کر کھڑے ہو جاؤ چاہے اس میں تمہارا نقصان ہو یا والدین کا یا قریبی رشتے داروں کا جس پر گواہی دو وہ مالدار ہو یا فقیر اللہ ان سے زیادہ اختیارات رکھتا ہے انصاف کی فراہمی میں خواہشات کی پیروی نہ کرو اگر تم ہیر پھیر کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے، سورہ نساء: 135۔

اسلام نے مکمل مساوات کی تعلیم دی جسے حکمرانوں نے فراموش کر دیا اور بنگالیوں کے بارے میں زبان اور رنگ ونسل کی بنیاد پر نفرتوں کو ہوا دی حالانکہ رسول اکرمؐ نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا: اے لوگو! کسی عربی کو عجمی پر یا گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں اللہ کے ہاں فضیلت کا معیار صرف تقوی ہے اسلامی اخوت مشرقی ومغربی پاکستانیوں کو متحد رکھنے کا اہم ترین ذریعہ تھا اسے توڑ دیا گیا مشرقی پاکستانیوں کو نازیبا الفاظ والقاب سے نوازا گیا جبکہ باہمی اخوت کا احساس اسلامی معاشرے کا اہم حصہ ہے جس سے محبت الفت، باہمی تعاون، بے لوث خدمت قربانی وایثار کے جذبات کو فروغ ملتا ہے اور بنگالی اکثریت کو نظر انداز کر کے اردو کو قومی زبان قرار دیا جس سے بنگالی مسلمان بھڑک اٹھے انہوں نے ایک زبردست تحریک چلائی جس میں ہزاروں نوجوان شہید ہوئے احساس محرومی کی اس سوچ کو 1970 کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن نے پوری طرح کیش کرایا لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں علٰیحدگی کی سوچ کو پروان چڑھایا اور الیکشن میں پہلی پوزیشن حاصل کی جمہوریت کے مطابق اقتدار اس کا حق تھا مگر اس کو جیل میں بند کرکے اس کی جماعت پر پابندی عائد کر دی اس کا مکمل فائدہ ہمارے ازلی دشمن انڈیا نے اٹھایا مشرقی پاکستان میں آباد ہندو نوجوانوں کو مالی مراعات دیکر جاسوسی کے لیے تیار کیا بنگال کے لوگ اپنوں کی ریشہ دوانیوں حکمرانوں کی زیادتیوں اور دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہو کر انڈیا کے ہم نوا بن گئے اور انڈیا نے فوجی کارروائی کردی۔

پاک فوج کے خلاف مقامی لوگوں نے گوریلا کارروائیاں شروع کر دیں۔ ایک حکمت عملی کے تحت فوج کو سیز فائر کا حکم دیا گیا جس کا ذکر بریگیڈیر صدیق سالک کی تحریروں میں موجود ہے مگر جنرل نیازی نے سرینڈر کرکے 93 ہزار فوجیوں کو دشمن کی قید میں دے دیا۔ اے داور حشر میرا نامۂ اعمال نہ پوچھ۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔ ہمیں بحیثیت محب وطن پاکستانی اس بات کا عہد کرنا چاہیے وطن کے دفاع تحفظ واستحکام کے لیے کسی قربانی وایثار سے دریغ نہیں کریں گے۔ خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب۔ ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔ آج ہمارے سیاستدان اقتدار کی لیلی سے ہم آغوش ہونے کے لیے بے قرار ہیں الزامی سیاست اور جائز نا جائز ذرائع کو اختیار کررہے ہیں عوام کو چاہیے وہ اسلامی سوچ رکھنے والے بے داغ ماضی کے حامل نمائندوں کو ووٹ دیکر ایوان میں پہنچائیں تاکہ وطن کے دفاعی حصار کو مضبوط سے مضبوط کیا جا سکے۔