ماضی‘ حال ‘ مستقبل

490

برصغیر تقسیم ہوا تو تمام ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ چاہیں تو پاکستان کے ساتھ شامل ہوجائیں یا بھارت کے ساتھ‘ ریاست حیدر آباد اور جوناگڑھ برصغیر کی تقسیم کے فارموالے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے ہڑپ کرلیے اور کشمیر کے عوام نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ دیا لیکن بھارت نے اپنی فوج اتار کر یہ معاملہ بگاڑ دیا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اس وقت کی فوجی قیادت کو حکم دیا کہ بھارت کا راستہ روکا جائے لیکن جنرل ڈگلس نے یہ حکم اور ہدایت سنی ان سنی کردی اور یوں مسئلہ کشمیر آج تک یہ حل نہیں ہوسکا۔ 1997 تک یہ عمل رہا کہ ہر سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں پاکستان کی کوششوں سے کشمیر کی قراردادوں پر عملدرآمد کی قرار داد پاس ہوتی رہی‘ 1997 میں پاک بھارت امن مذاکرات شروع ہوئے‘ پاکستان کی جانب سے وزیر خارجہ گوہر ایواب خان اور بھارت کی جانب سے بھارتی وزیر خارجہ اندر کمار گجرال شریک ہوئے ان کے بعد سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان اور بھارت کی جانب سے مسلمان سیکرٹری خارجہ سلمان عزیز شریک ہوئے اور دونوں ملک باہمی اعتماد سازی کے لیے آٹھ نکات پر متفق ہوئے‘ بھارتی سیکرٹری خارجہ نے دہلی پہنچتے ہی بیان دیا کہ وہ آزاد کشمیر کی بات کرکے آئے ہیں‘ اس کے بعد پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر کے لیے قرارداد پیش نہیں کی۔ 2019 آگیا تو بھارت نے اپنے آئین میں آرٹیکل 370 اور35A کی شکل ہی بگاڑ کر رکھ دی‘ تب وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ کشمیریوں کے وکیل بنیں گے اور ٹیپو سلطان بنیں گے‘ لیکن وہ وکیل بنے نہ ٹیپو سلطان۔

2019 کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ہر قسم کی قانون سازی کی‘ انتظامی فیصلے کیے‘ آبادی کا توازن بگاڑنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ہمارے ٹیپو سلطان خاموش رہے‘ اسلام آباد میں عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجہ میں حکومت تبدیل ہوئی تو وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت بنی‘ بلاول وزیر خارجہ بنائے گئے وزیر خارجہ بننے سے قبل انہوں نے ’’نواز شریف کو طعنہ دیا کہ مودی کا جو یار غدار غدار ہے‘‘ وزیر خارجہ بن جانے کے بعد وہ سب کچھ بھول گئے وقت آگے بڑھتا رہا اب بھارت کی عدالت عظمیٰ نے کشمیر کے حوالے سے نریندر مودی حکومت کے 2019ء کے اقدام کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اس متفقہ عدالتی فیصلے نے مقبوضہ کشمیر کے الحاق پر مہر ثبت کردی ہے تاہم اس فیصلے میں حیرت کا کوئی عنصر نہیں ہے، بھارت کے زیر تسلط رہنے والے لاکھوں کشمیریوں کے لیے یہ ایک اور سیاہ فیصلہ ہے۔ اس فیصلے نے مودی کی ہندو قوم پرست جماعت کو عام انتخابات کے موقع پر بہت بڑا سیاسی فائدہ دیا ہے۔ عدالت نے اگلے سال 30 ستمبر تک انتخابات کروانے کا بھی حکم دیا ہے دیکھتے ہیں کہ وہاں کون انتخابات کرائے گا اور نتائج کیا ہوں گے؟

مودی نے 5 اگست 2019ء کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا تھا یوں سات دہائیوں کے بعد مقبوضہ وادی کے لیے برائے نام خود مختاری کو بھی ختم کردیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کے اختیارات کو اس قدر کم کردیا گیا کہ مقبوضہ ریاست سے خود مختاری کی جھلک تک ختم ہوگئی جس جلدبازی میں یہ کام کیا گیا ہے وہ بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے ہٹ دھرمی اور حد سے تجاوز کا مظاہرہ تھا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی نے خطے کو دو وفاقی علاقوں لداخ اور جموں و کشمیر میں تقسیم کر دیا ہے۔ اب ان دونوں پر ان کے اپنے مقننہ کے بغیر براہ راست مرکز سے حکومت کی جائے گی‘ 5 اگست کی کارروائی کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہروں کو کچلنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں اضافی بھارتی فوجیوں کی تعینات ہوئی یہ علاقہ گزشتہ چار سال سے نئی دہلی کی براہ راست حکمرانی میں ہے۔ یہ عملی طور پر محاصرے میں ہے اور تمام بنیادی حقوق معطل ہیں۔ چار سال سے زیادہ عرصے سے بھارتی عدالت عظمیٰ کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کو منسوخ کرنے کے فیصلے کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی، سنائے گئے فیصلے نے نہ صرف مودی حکومت کے غیر قانونی اقدام کی ’توثیق‘ کردی‘ زیادہ نقصان دہ امر عدالت کی جانب سے آرٹیکل 35 اے کی منسوخی کی توثیق ہے۔ آرٹیکل 35 اے نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ صرف کشمیر کے مستقل باشندے ہی خطے میں جائداد کے مالک ہوسکتے ہیں۔

مودی حکومت نے مسلم اکثریتی علاقے کی آبادی کو تبدیل کرنے کی کوشش میں ڈومیسائل رول کو تبدیل کیا۔ ’یہ اقدام ہندوستان کے کسی بھی ایسے شخص کو رہائش اور سرکاری ملازمتوں کا حق دیتا ہے جو ریاست میں 15 سال یا اس سے زیادہ عرصے رہا ہو، وہاں سات سال تک تعلیم حاصل کی ہو اور کچھ امتحانات دیے ہوں یا ریاستی حکومت میں 10 سال یا اس سے زیادہ کام کیا ہو‘۔ بھارت کے مختلف حصوں سے تقریباً 50 لاکھ افراد نے کشمیری ڈومیسائل سرٹیفکیٹ پہلے ہی حاصل کر لیے ہیں، اس طرح مقبوضہ علاقے کی آبادی کا تناسب تبدیل ہو رہا ہے جو انتخابات ہونے کی صورت میں ان کے نتائج کو تبدیل کر سکتا ہے‘ ایسا لگتا ہے کہ بھارتی عدالت عظمیٰ کا حکم انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست ہندوتوا کی طرف مائل ہے جس سے مودی کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہوگی۔ تین بڑی ریاستوں میں پارٹی کی تازہ ترین جیت نے پہلے ہی اس کی انتخابی پوزیشن کو مستحکم کر دیا ہے۔ پاکستان کے پاس موجودہ حالات میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کی جدوجہد کی سیاسی اور اخلاقی حمایت کرنے اور بین الاقوامی فورمز پر بھارت کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرنے کے علاوہ آپشنز محدود ہی ہیں۔ لیکن کشمیری عوام نے دکھا دیا ہے کہ بھارتی ریاست کی طرف سے طاقت کا بے تحاشا استعمال حصول آزادی کے ان کے عزم کو کم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ ان کے لیے ایک طویل جنگ ہونے والی ہے لیکن بھارت کے سخت اقدامات ان کے عزم کو مزید توانا کریں گے۔