سندھ میں فارمنگ پروگرام پر تحفظات

456

ملک بھر کی طرح صوبہ سندھ میں بھی فارمنگ پروگرام پر سندھ یونائٹیڈ پارٹی کو تحفظات ہیں۔ یہ ان کا حق ہے کہ وہ اپنا نکتہ نظر عوام کے سامنے اور حکمران وقت کے گوش گزار کریں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں۔ جی ایم سید کے پوتوں سید جلال محمود شاہ اور سید زین شاہ نے اس احتجاج کے لیے 16 دسمبر کا انتخاب جو معنی خیز ہے کرکے کیا پیغام دیا ہے؟؟ 16 دسمبر کو سقوط مشرقی پاکستان بھارتی جارحیت، اپنوں کی غداری اور ہوس اقتدار کی بدولت ہوا اور اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے سینہ پھلا کر کہا کہ ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں غرق کردیا۔ یہ سقوط غرناطہ کے بعد سب سے بڑا مسلم اُمہ کے لیے سانحہ تھا۔ اس میں پاکستان کی نصف لاکھ سے زائد افواج نے غدار مکتی باہنی اور بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈال کر اسلامی تاریخ پر ایک بدنما داغ کا اضافہ کیا۔ اور کشمیر لینے کا دعویٰ ہی رہا اور مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھونا پڑ گیا۔ ہر محب وطن سوگوار ہوگیا اب فوج کے تعاون سے زمین کارپوریٹ فارمنگ کے حوالے سے ان اکابرین کی حیدر آباد میں اجلاس کے بعد پالیسی پریس کانفرنس جس میں پارٹی کے اہم عہدیدار شامل تھے میں یہ کہنا کہ یہ منصوبہ صوبائی خودمختاری کو چھیننے اور سندھ پر قبضے کی سوچ پیدا کرنے کا ہے اور پھر سقوط مشرقی پاکستان کی تاریخ 16 دسمبر کو سندھ بھر میں احتجاجی مظاہرے یہ بتانے کو ٹائم فریم کے لحاظ سے کافی ہے کہ سندھ میں بھی مشرقی پاکستان کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے۔

سندھ یونائٹیڈ پارٹی جو سندھو دیش کے نعرے کو ترک کرکے انتہا پسندی کو تج دے کر خود مختار سندھ تک آگئی تھی اس تاریخ کے انتخاب کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ آزادی اور سندھو دیش کے قیام کی طرف لوٹ سکتی اور اس کے نتائج اچھے نہ ہوں گے۔ یاد رہے کہ 1970ء کے انتخاب کے بعد جمہور کے فیصلے کو تاراج کرکے بوٹوں تلے اس رائے عامہ کو روندنے کے عمل نے جہاں سقوط مشرقی پاکستان کا سامان کیا وہاں سندھو دیش تحریک کو مہمیز دی، مگر ضیا الحق کی حکمت عملی محبت فاتح عالم نے جی ایم سید کو انتہا پسندی اور اپنے ہاتھوں بنائے ہوئے گھروندے کو روندنے سے فاصلہ پر کردیا۔ اور پھر جی ایم سید کے فرزند سید امداد محمد شاہ نے والد محترم کی پالیسی انتخاب کا بائیکاٹ کو چھوڑ کر انتخاب میں حصہ لینا شروع کیا اور انتہا پسند سندھودیش کے حامیوں پر سن شہر میں پروگرام کرنے پر پابندی کے ساتھ اپنے پروگرامات میں سندھودیش کے بجائے سندھ کھپے خودمختار کے نعرے کو پروان چڑھایا اور یوں پاکستان کے اندر رہنے کی سیاست کا آغاز کرکے اپنے فرزند جلال محمود شاہ کی کامیابی انتخاب کی راہ ہموار ہی نہ کی بلکہ خوشگوار تعلقات سے سندھ اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کے منصب پر متمکن کرادیا۔ اور یوں خانوادہ جی ایم سید پاکستان توڑنے کے بجائے حقوق کے حصول کی طرف منہ موڑنے پر راغب ہوگیا۔ سندھو دیش اور آزادی کے حامیوں پر ضرب کاری تھی اور ہے۔ اب فارمنگ کے حوالے سے اس سید گھرانے کی پارٹی کو اعتراضات ہیں تو وہ بیٹھ کر حل کریں اور اس کو ان نازک حالات میں انتہا پسندی کی طرف نہ دھکیلا جائے۔

ویسے اس منصوبے پر امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی نے بھی اعتراضات اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ سندھ کی زمینوں کی بندربانٹ قبول نہیں کریں گے۔ صوبائی نگراں حکومت کے پاس اراضی وفاق کو دینے کا مینڈیٹ نہیں ہے عوام دشمن فیصلہ واپس لیا جائے، صوبہ میں موجود زرعی اراضی یہاں کے کسانوں کو دی جائے، زرعی زمین پر سب سے پہلا حق یہاں کے کسانوں کا ہے۔ حکومت سندھ کی طرف سے 52713 ایکڑ زمین لیز پر اداروں کو دینا سندھ کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ سندھ میں پہلے ہی وفاق اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف استحصالی ایجنڈے کی وجہ سے ناراضی پائی جاتی ہے، ایسے فیصلوں سے اس میں مزید اضافہ کا خدشہ ہے۔ یاد رہے کہ کے پی کے اور بلوچستان میں بدامنی اور وفاق کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے اس کو مزید سندھ تک پھیلانے سے باز رہنا ہوگا۔ خدشات دور کریں، ترقی سندھ کے حوالے سے کوئی مخالف ہرگز نہیں۔

ایک خبر منظر عام پر آئی ہے کہ سندھ سے تقسیم کے وقت جو ہندو نکل مکانی کر کے بھارت چلے گئے تھے انہوں نے بھارتی صدر کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے بھارت میں نیو سندھ کے نام سے ایک صوبے کا مطالبہ کیا ہے اور پٹیشن بھی دائر کرنی شروع کرکے یو ٹیوب کے ذریعے رابطے کی مہم بھی شروع کردی، یوں بھارت جو سندھ کے عوام کو حقوق کے نام بھڑکانے میں مصروف ہے اب اس کو اپنے ملک ان سندھیوں کو جو نقل مکانی کرکے بھارت آئے ہیں کے حقوق کے مطالبے کا سامنا ہے پاکستان کے خلاف بھڑکائی آگ اس کے دامن تک آگئی۔