انتخاب کا ڈھونگ کیوں…؟؟

514

منفرد اعزاز کے حامل محمد نواز شریف جو وزارتِ عظمیٰ پاکستان کی تین مرتبہ معنی خیز مدت پوری کرچکے ہیں، چوتھی مرتبہ کی آس دیکھ کر پھر پاکستان لوٹ آئے تو کڑوی زبان کی باتیں انہوں نے جلاوطن کردی اور میٹھی بولی نے مقتدر حلقوں سے تعلقات کی بحالی کے چرچے عام کردیے۔ ان دنوں موسم سرد ہوا تو تعلقات کی گرما گرمی بھی برقرار نہ رہی اور زبان کی تلخی پھر خبروں میں دیکھی جانے لگی تو مجھے سندھی زبان کی کہاوت یاد آگئی کہ ’’زبان آھی چم جی کین نہ کم جی‘‘ یعنی زبان ہے چمڑے کی جو کسی کام کی نہیں۔ یہ کام بگاڑنے میں دیر نہیں لگاتی۔ سو ہوا یہ کہ آپ نے مقتدر حلقوں کو چپڑی اور دو دو کا پیغام دیا کہ صرف حکومت نہیں لیں گے۔ 2017ء کے جعلی مقدموں کا احتساب بھی چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بیان کوئی جلسہ عام میں سیاسی نہیں دیا بلکہ پارلیمانی بورڈ کے سامنے دیا۔ وہ مسلم لیگ (ق) کے چودھری شجاعت جو مٹی پائو سیاست کرتے ہیں سے ملاقات خوشگوار کے بعد دیا تو ساتھ یہ بھی بتادیا کہ کچھ زخم ہیں جو بھرتے نہیں ہیں۔ یہ تلخ نوائی تو چودھری شجاعت کے لہجے میں نہیں جن سے بقول ان کے نواز شریف نے قرآن شریف پر عہد وعید کیا تھا اور پھر زبان پر قائم نہ رہے۔

نواز شریف نے تو آئی جی آئی کے دور میں جب جماعت اسلامی اس کا قوت بازو تھی اور پروفیسر عبدالغفور جماعت اسلامی کی طرف سے اتحاد میں جنرل سیکرٹری تھے۔ کراچی میں اپنی اتحادی جماعت اسلامی کے امیدواروں کی انتخابات میں حمایت کے بجائے ایم کیو ایم کے امیدواروں کی حمایت کا برملا اعلان کرکے بے شرمی کا مظاہرہ کیا۔ اور تو اور پھر جب حکومت میں آئے تو جماعت اسلامی نے نواز شریف کی ہوس اقتدار دیکھی تو قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی نے کوئی وزارت نہ لینے کا اعلان کیا عرف عام کے مطابق تم اپنا پیٹ بھرلو، اور پھر صاف شفاف حکومت کو رکھنے کے لیے پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کے لیے لیاقت بلوچ کا نام دیا تو نواز شریف ایسے مصرف ہوئے کہ سادہ زبان کعبہ سے جیسے کافر پھرتا ہے۔ یہ سادہ جملہ سخت ہے مگر حکومتی نشہ نے نواز شریف کو ایسا مدہوش کیا کہ وہ جماعت اسلامی کے وفد کو ملاقات کا وقت دیتے، انتظار کراتے اور پھر جواب کہلوا دیتے کہ مصروفیت ہے پھر سہی۔ آئی جی آئی نام نہاد ہو کر رہ گئی اب نواز شریف لائے گئے۔ اقتدار کا فاصلہ کم اور اجرت زیادہ کا معاملہ رکھا۔ محترمہ بے نظیر کے متعلق مقتدرہ کی رائے یہ تھی کہ وہ کسی کو سمجھتی نہیں اور نواز شریف کو سمجھ میں نہیں آتی۔ کا قول پھر صادق دن ہونے کو ہے کہ اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ قوم جاننا چاہتی ہے کہ 2018ء میں کیا ہوا تو وہ قوم کو بھول بھلکڑ بھی کیوں سمجھ رہے ہیں کہ آئی جی آئی کی حکومت میں انہوں نے اپنے حمایتیوں اور ہمدردوں کے ساتھ کیا کیا۔ بہرحال اب نواز شریف کو العزیزہ اسٹیل مل کے مقدمے کی پھانس نے بے چین، جس میں وہ سات سال کے سزا یافتہ ہیں اور اس سے انہیں بریت درکار تھی جو اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا۔ اب وہاں سے بھی بریت کا سامان ہوگیا اور یوں راہیں کشادہ ہوگئیں یا کردی گئیں۔

آصف علی زرداری جو بلاول کو وزیراعظم بنانے کے لیے مسلسل سرمایہ کاری کررہے تھے انہوں نے دیکھا کہ ان کے تلوں میں تیل نہیں اور بلاول نے نواز شریف کو تقریروں میں نشانہ مشق بنانا شروع کردیا تو مقتدر حلقوں نے انہیں ریڈ کارڈ دکھادیا تو آصف زرداری کئی قدم پیچھے ہٹ گئے اور اب وہ بلاول کو صدر پاکستان بنانے پر سرمایہ کاری میں مصروف بتائے جاتے ہیں۔ رائو انوار سابق ایس ایس پی کی حالیہ الزاماتی پریس کانفرنس بھی پی پی پی کو حد کراس نہ کرنے کی تنبیہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کو پھر اگر ان دونوں گھرانوں شریف اور زرداری کے سپرد کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا تو انتخاب کا ڈھونگ کیوں اور اس پر اربوں روپے کے اخراجات کی ضرورت کیا ہے۔ کیا یہ ملک ان کو پٹے پر دے دیا ہے، قوم یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتی ہے کیا یہ اب معیاری ہوگئے ہیں تو کیسے؟