طوفان اقصیٰ کے ثمرات الیکٹرونک گیمز کی صورت

7 اکتوبر کو طوفان اقصیٰ کے معرکے میں مجاہدین اسلام نے میدان جنگ کی جدید اصطلاحات اور آلات حرب متعارف کرائی ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اس معرکے سے مرتب ہونے والے نتائج وثمرات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا کو یہ بتائیں کہ اسلام پوری دنیا کے لیے امن ومحبت اور خیروفلاح کا پیغام ہے۔

اقدار کی مارکیٹنگ (تسویق القیم): ممکن ہے آپ کو اصطلاح عجب لگے۔ اس لیے کہ تسویق (Marketing) کا تعلق مادیت کے ساتھ ہے اور اقدار کا تعلق معنوی امور کے ساتھ ہے۔ میں خود اس اصطلاح کو وضع کرنے کے حوالے سے کافی شش وپنج میں مبتلا تھا لیکن عصر حاضر میں مغرب کی اپنی تہذیب کی ترویج نے مجھے مجبور کردیا کہ ہمیں بھی اپنے دین کے پیغام کو مختلف طریقوں سے دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے، حقیقت یہ ہے کہ دنیائے مغرب اپنی مادی اور صارفیت پر مبنی قدروں کی مارکیٹنگ کرنے میں کامیاب ہے جبکہ مسلمان اپنی آفاقی اقدار کی مارکیٹنگ میں ناکام ہیں۔ لہٰذا مغرب نے اپنے فلموں، ڈراموں، نغموں اور کارٹونوں کے ذریعے بچوں اور بڑوں کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ (باوجود اس کے دین اسلام ہی واحد دین ہے جس پوری انسانیت کے لیے سکون واطمینان ہے۔) اسی بنیاد پر میں نے یہ اصطلاح وضع کی ہے کہ اپنے دینی اشعار کی مختلف ذرائع سے تشہیر کرنی چاہیے محض چند وسائل تبلیغ پر انحصار نہیں کرنی چاہیے۔

اس حقیقت سے سب کو آگاہ ہونا چاہیے کہ اہل مغرب نے اپنی مادہ پرست تہذیب کی ترویج کے لیے گانوں، دلکش فلموں، غیر فطری اور بے حیائی پر مبنی لباس کے ذریعے، مختلف پروڈکٹس اور بالخصوص کھانے پینے کی اشیاء کے توسط سے لوگوں کو اپنی تہذیب کا پرستار بنایا ہوا ہے۔ اسی طرح وہ بچوں اور بڑوں کو الیکٹرونک گیمز کے ذریعے اپنی رعب ودبدبے کو ذہنوں پر مسلط کررہے ہیں، اور اس ہدف کے حصول کے لیے دلکش اور انسان دوستی کے نام کا اسلوب استعمال کیا جاتا ہے۔

دشمنان اسلام نے اپنی عداوت اور دین دشمنی کے لیے الیکٹرونک گیمز کو استعمال کرتے ہوئے (Call Of Duty) گیم میں لفظ جلال کو باتھ روم میں تحریر کیا گیا ہے، (Resident Evil) گیم میں قرآن کی توہین کے ساتھ ساتھ اس کو زمین پر پھینکنے کا عمل دکھایا جاتا ہے۔ (Devil May Cry) گیم میں کعبہ کے دروازے سے جنوں کی دنیا میں داخل ہونے کا تصور دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس کے ذریعے سے اسلام اور مسلم شخصیات کی توہین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن طوفان اقصیٰ کے معرکہ نے پوری عالم کو حیران وششدر کردیا حتیٰ کہ صہیونی قیادت یہ بات کہنے پر مجبور ہوگئی کہ: میدان جنگ میں ان کا مقابلہ بھوتوں سے ہورہا ہے۔ (اچانک نمودار ہوتے ہیں، پھر غائب ہوجاتے ہیں) لیکن وہ حقیقت میں اللہ کے لشکر سے لڑرہے ہیں جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور تیرے ربّ کے لشکروں کو کوئی نہیں جانتا اور یہ انسانوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے۔ (سورۃ المدثر: 31)

مجاہدین کی عظیم کامیابی اور ان کے اپنے مقصد میں کامیابی کو ایک الیکٹرونک گیم کی صورت میں پیش کرنا ایک اہم کام ہے جس کے ذریعے نہ صرف جہاد و مزاحمت کے نمایاں کرداروں کو دستاویزی شکل دی جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کرداروں نے نوجوانوں میں جو نئی روح پھونک دی ہے اور ہمت و بہادری اور قیدیوں سے حسن سلوک جیسی عربی و اسلامی اقدار کو ایک مرتبہ پھر بھرپور طریقے سے پوری دنیا کو متعارف کروایا ہے۔ اس کے علاوہ اس دستاویز میں قابض قوتوں کے انسان و حیوان اور چرندو پرند حتیٰ کہ پتھروں تک پر مظالم اور جرائم کو بھی پیش کیا جائے۔

اس ویڈیو گیم کے لیے کسی آئیڈیے اور کرداروں پر غور کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ وہ تو قابض قوت کے لشکر اس کے آلات جنگ اور اسلحہ کی صورت میں پہلے ہی موجود ہے۔ قابل غور و فکر یہ بات ہے کہ اس میں اقدار کو کس طرح شامل کیا جائے اور وہ بھی اس طرح کہ وہ کھیلنے والوں کے سوچ و فکر کا حصہ بن جائے۔ فوری طور پر تو اس گیم کا نام طوفان اقصیٰ، ابوعبیدہ، مسافۃ صفر یا الیاسین ہوسکتے ہیں۔ اور کھیل کے ٹولز میں اسلحہ کے نام ہوسکتے ہیں جو کتائب القسام کے مجاہدین نے اس معرکہ میں استعمال کیا جیسا قذائف الیاسین 105، قذائف ٹی بی جی، کورنیٹ میزائل، متبر 1 وغیرہ اس کے علاوہ جو اسلحہ مجاہدین نے اسرائیلی سے مقابلے کے لیے استعمال کیے۔ اس کے علاوہ کتائب القسام کی ویڈیو میں استعمال ہونے والا مثلث (جو کسی ٹینک مجاہدین کے بنائے گئے ہدف کو نمایاں کرتا ہے) کے علاوہ مجاہدین کی سرنگیں، تباہ شدہ عمارتوں اور جدید ترین مرکاوا ٹینک استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مزید یہ کہ اس گیم میں چیلنج اور تعجب و حیرت کے عنصر کو شامل کیا جائے کہ کس طرح جدید ترین گاڑیوں اور ٹینکوں کو صفر فاصلے سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس گیم کے لیے ایک اچھے گیم پروگرامر، مارکیٹنگ ویلیو کے ماہر، بڑے پیمانے پر گیم کی تیاری اور تقسیم کے لیے فنڈنگ کی ضرورت ہے۔

اس گیم کے ذریعے بہت سی اقدار کی اشاعت اور مارکیٹنگ ممکن ہے جیسا کہ جہاد کے مفہوم کو واضح کرنا کہ دفاع کے لیے جہاد کیا ہے اور نفس سے جہاد کیا ہے، مقدس مقامات کی حفاظت اور اس کے لیے قربانی دینا مزید یہ کہ ان اقدار کو پروان چڑھانا کہ اللہ کے لیے لڑنے والے کس طرح اپنے سے زیادہ جدید اسلحے سے مقابلہ کرتے ہیں اور بغیر کسی حفاظتی اشیاء کے ظالموں کا مقابلہ کرتے ہیں یہاں تک ان کے پاس جوتے تک نہیں ہوتے۔ اس گیم کے توسط سے دینی روح کی پختگی کے ساتھ ساتھ اس کی ترویج بھی کی جاسکتی ہے جس میں جہاد کی روح کو پروان چڑھانے کے ساتھ بچپن ہی سے بہادری وشجاعت پیدا ہوسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی بچہ کئی سال سے پتھر ہاتھ میں لیے ٹینک کے سامنے کھڑا ہے وہی بچے غزہ میں بنائے گئے شیل سے ان کا مقابلہ کررہے ہیں۔ کیا کوئی ایسا شخص موجود ہے جو سنجیدگی کے ساتھ اس ہدف کے حصول میں اپنا اہم کردار اد کرے، اور یہ اہم کام اس کی جانب سے پوری امت کی جانب سے فرض کفایہ ہوگا۔