فیصلہ قاری کے ہاتھ میں ہے

515

آئیے کچھ چند ایک حقائق جانتے ہیں، یا جاننے کی کوشش کرتے ہیں، ایک ایسی نوجوان نسل جو سوشل میڈیا کے دور میں پلی بڑھی اور جوان ہوئی ہے اسے بہت ہی چلاک لابیوں نے خوب اندھیرے میں رکھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور یہ کوشش ابھی جاری ہے۔ سوشل میڈیا نوجوان نسل کو حقائق کم بتا رہا ہے گمراہ زیادہ کر رہا ہے، پاکستانی کی پارلیمانی تاریخ میں ایک رکن قومی اسمبلی گزرے ہیں، جنہیں کوئی بھلا سکتا ہے نہ انہیں بھلایا جائے گا۔ وہ تھے ڈاکٹر نذیر احمد، جنہیں بھٹو دور میں اس وقت قتل کردیا گیا تھا جب وہ اپنے کلینک پر موجود تھے، ڈاکٹر نذیر شہید جیسا پارلیمنٹیرین آج تک پیدا نہیں ہوا، جب انہیں قتل کیا گیا تو اس وقت مصطفی کھر پنجاب میں گورنر تھے، ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیر اعظم تھے، اور ڈاکٹر نذیر شہید کے قاتل نہیں مل سکے، اس وقت شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ جس قتل کا کوئی مدعی نہ ہو یا کمزور ہو، ریاست اس کی مدعی ہوتی ہے، لیکن بھٹو حکومت کے ہوتے ہوئے ڈاکٹر نذیر شہید کے قاتل نہیں ملیں گے۔ ڈاکٹر نذیر شہید نے اپنے مدمقابل ایک بڑے جاگیر دار گھرانے کے سربراہ اور سردار کو شکست دی تھی، سردار محمد فاروق خان لغاری نے ایک نجی ٹیلی ویژن کے ساتھ انٹرویو میں، یہ سوال پوچھا تھا کہ آپ کے خاندان کے سربراہ کو ڈاکٹر نذیر شہید جیسے غریب سیاسی کارکن سے کیوں شکست ہوئی تھی، تو لغاری صاحب کا جواب تھا ہم نے خود ہی ایسا ماحول بنایا تھا کہ ہمارے مقابلے کا دوسرا بڑا قبیلہ نہ جیت جائے۔ ڈی جی خان میں لغاری اور دریشک خاندان روایتی سیاسی حریف ہیں، بہر حال لغاری صاحب نے تو جواب دینا تھا دے دیا، ڈاکٹر نذیر شہید کی کامیابی میں اللہ کے بعد ان کی غریب پروری کا بڑا دخل تھا، ڈاکٹر نذیر شہید کی جدوجہد، سیاسی کردار اور ان کے رابطہ عوام کو سیاسی کارکن اگر ایک نصاب کے طور دیکھیں اور ان کی سیاسی زندگی سے متعلق مسلسل پڑھیں اور جانیں تو انہیں بہت کچھ مل سکتا ہے، لیکن آج کل پڑھنے لکھنے کا دور کہاں؟ آج کا سیاسی کارکن تو فخر سے یہ بات کرتا ہے کہ ’’ہم تو کوئی اخبار نہیں پڑھتے‘‘۔ ڈاکٹر نذیر شہید قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے ڈھاکا بھی گئے تھے اور اس وقت نواب زادہ احمد رضا خان قصوری نے بھی قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے ڈھاکا جانے کا تہیہ کیا تھا اور باقاعدہ اعلان کیا تھا، اس وقت بھٹو صاحب نے کہا تھا جو ڈھاکا جائے گا…،

ڈاکٹر نذیر شہید کے بعد ایک دوسرے شہید کی بھی بات کرلیتے ہیں، بھٹو دور میں ہی خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ رفیق قتل ہوئے، خواجہ سعد رفیق کو بھی انصاف کے لیے عدالت سے رجوع کرنا چاہیے کہ وہ بھی اسی ملک کے شہری ہیں اور ماضی کی بھٹو حکومت کے زخم خوردہ ہیں، وہ عدالت جائیں تو ان کی مرضی، نہ جائیں تو بھی ان کی مرضی، پیپلزپارٹی تو ان دنوں بھٹو قتل کیس میں انصاف کی طلب میں عدالت عظمیٰ پہنچی ہے، انصاف مانگنا اور حاصل کرنا ہر شہری کا حق اور بنیادی حق ہے، بھٹو کیس ری اوپن کرنے کی پہلی بار تجویز محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں پیپلزپارٹی کے اعلیٰ حلقوں میں زیر غور آئی تھی تاہم قانونی پہلوئوں پر غور کے بعد یہ تجویز آگے نہ بڑھ کسی تھی، بعد میں آصف علی زرداری کے صدارت کے دور میں بھٹو ریفرنس عدالت عظمیٰ میں دائر ہوا، اس وقت بابر اعوان اس کیس کے اہم وکیل تھے، اب وہ اس کیس سے وابستہ نہیں رہے، اعتزاز احسن بھی اس کیس سے خود کو الگ کرگئے ہیں۔ اس کیس کی حالیہ سماعت کے دوران عدالت نے معاونین کے سامنے سوالات رکھے گئے ہیں کہ:

کیا فوجداری مقدمے کی سماعت براہ راست ہائی کورٹ میں کی جا سکتی تھی جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے کیس میں ہوا؟
مقدمے میں لاہور ہائیکورٹ کے پاس کیا اسکوپ تھا؟
کیا اس سے پہلے اس طرح کی کوئی عدالتی نظیر یا مثال موجود تھی کہ ٹرائل ہائیکورٹ میں ہوا ہو؟
لاہور ہائی کورٹ نے یہ ٹرائل کس طرح کیا؟ کیا اس پر کوئی اعتراض اُٹھایا گیا تھا اور اگر ایسا کیا گیا تو اُس پر جواب کیا تھا؟
ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کے مقدمے میں گواہوں یا وعدہ معاف گواہ کے بیان کی حیثیت کیا تھی؟

پیپلزپارٹی کی اس کوشش پر ہم کچھ بھی نہیں کہنا چاہتے ہیں، صرف کچھ حقائق ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، بھٹو کیس میں دو جج جسٹس قیصر خان اور جسٹس وحید الدین احمد، ( جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد کے والد) اس وقت بنچ میں شامل تھے، تاہم ان میں ایک ریٹائر ہوگئے اور دوسرے بیمار پڑ گئے، جسٹس نسیم حسن شاہ (جسٹس (ر) آصف سعید کھوسہ کے سسر) کو بھٹو صاحب نے ہی جج بنایا تھا، جسٹس صفدر شاہ (جسٹس اطہر امن اللہ کے سسر) کو بھٹو صاحب نے جج نہیں بنایا تو کچھ خفا ہوئے بعد میں انہیں جسٹس انوار الحق نے جج بنایا، پھر جو کچھ ہوا یہ اب تاریخ کا حصہ ہے، اور فیصلہ بھی قاری کے ہاتھ میں ہے، 1985 میں تو پیپلزپارٹی ایم آر ڈی کا حصہ تھی، لہٰذا ایک خاص منصوبہ بندی کے ساتھ پیپلزپارٹی سے اس وقت غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کرایا گیا، اس کے بعد 1988 میں انتخابات ہوئے، قومی اسمبلی کی 207 نشستوں میں پیپلزپارٹی نے 93 نشستیں جیتیں، ایم کیو ایم اور کچھ آزاد ملا کر اس کے پاس سادہ اکثریت تھی، لیکن غلام اسحاق خان پیپلزپارٹی کو مرکز میں حکومت بنانے کی دعوت نہیں دے رہے تھے، اس وقت تک صدر کے پاس یہ آئینی اختیار تھا کہ وہ خود دیکھے کہ اس کی نظر میں وزارت عظمیٰ کے منصب کے لیے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں قومی اسمبلی میں اکثریت کس کے پاس ہے؟ 16 نومبر1988 کو ملک میں عام انتخابات ہوئے اور 21 نومبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو غلام اسحاق خان سے ملاقات کے لیے ان کے پاس گئیں، اور چند ملاقاتوں کے بعد کچھ شرائط طے ہوئیں اور یوں دونوں کے مابین بہر حال ایک خاموش مفاہمت ہوئی، پیپلزپارٹی نے جنرل ضیاء الحق کے اس بااعتماد ساتھی سے مفاہمت کی جو بھٹو کی پھانسی کا کسی حد تک مشورے میں شامل تھا، غلام اسحاق خان نے پیپلزپارٹی کے ساتھ اس شرط پر مفاہمت کی کہ پیپلزپارٹی نے انہیں صدارتی امیدوار بنائے گی اور کامیاب بھی کرائے گی، یہ مفاہمت ہیپی مینولا کے ذریعے ہوئی، اور پاکستان میں اس وقت کے امریکی سفارت کار رابرٹ اوکلے بھی اس کھیل میں شامل تھے، رابرٹ اوکلے نے ہی ہیپی مینولا کو غلام اسحاق خان کو صدر بنانے کی تجویز دے کر محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاس بھیجا تھا، غلام اسحق خان کا نام وسیم سجاد نے تجویز کیا اور پیپلزپارٹی نے حمایت کی، اس طرح غلام اسحاق خان ملک کے صدر بن گئے، یہ سب کچھ تاریخی حقائق ہیں، حالانکہ بیگم نصرت بھٹو بھی اس عمل کے خلاف تھیں وہ نہیں چاہتی تھیں کہ غلام اسحاق خان کے ساتھ اس شرط پر کوئی مفاہمت کی جائے، لیکن بے نظیر بھٹو صاحبہ نے یہ مفاہمت کی، ہوسکتا ہے ان کی رائے میں یہ کام اس وقت ضرورت بھی ہو اور جائز بھی، گویا اس وقت اقتدار کے لیے مفاہمت جائز تھی، وہ بھی جنرل ضیاء الحق کے ساتھی غلام اسحاق خان کے ساتھ، اسی لیے ہم نے قاری پر یہ بات چھوڑ دی ہے کہ وہ جو چاہے فیصلہ کریں اور اپنی رائے بنائیں، اگر کسی نے ان تاریخی حقائق کی تفصیلات جاننا ہیں تو وہ یحییٰ بختیار کو ضرور پڑھ لے، یحییٰ بختیار بھٹو صاحب کے اٹارنی جنرل اور نواب محمد احمد خان قتل کیس میں وکیل تھے، بھٹو کیس میں مسعود محمود، اس وقت کے فیڈرل سیکورٹی فورس، ایف ایس ایف کے سربراہ وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے،

ایف ایس ایف کے دیگر افسر غلام مصطفی، میاں عباس اور دیگر نے سب کچھ اپنی رضا مندی سے عدالت میں بیان دیے، بھٹو کیس میں اس وقت کی حکومت نے کیا فیصلے کیے، یہ فیصلے کس طرح ہوئے، اور ان فیصلوں کی بنیاد یا وجوہات کیا تھیں؟ یہ سب کچھ جاننے کے لیے جنرل ضیاء الحق کے قریبی اور اس وقت کے ان کے با اعتماد ساتھی، جنرل(ر) فیض علی چشتی سے رجوع کرنا ہوگا، وہ سب کچھ جانتے ہیں اور وہ خود کچھ کہنا چاہیں تو بہت کچھ خفیہ پہلو بھی سامنے آسکتے ہیں، ہاں ایک اور شخصیت ہیں، وہ ہیں عابد منٹو، ان کے پاس بھی ایف ایس ایف کے چار لوگوں میں سے چند ایک کے عزیزوں یا ان کی جانب سے بلواسطہ یا براہ راست کوشش کی گئی کہ وہ ان کے ذریعے اپیل کریں گے، یہ اب عابد منٹو ہی بتا سکتے ہیں کہ ایسی کوئی کوشش ہوئی تھی یا نہیں، ہاں اس وقت کے بریگیڈیئر راحت لطیف بھی اور کیپٹن عزیز کے پاس بھی کچھ معلومات ہوں گی، جنرل(ر) عزیز، ضیاء الحق کے دور میں فوج میں کیپٹن تھے… اب یہ کیپٹن عزیز کون ہیں؟ ہم نے اس حساس موضوع کی ساری کہانی قاری کے فیصلے پر چھوڑ دی ہے۔