غزہ کے بچوں کی پکار

460

11 دسمبر کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی 77 ویں سالگرہ ہے، آج کی مہذب دنیا میں یہ ادارہ دنیا بھر میں تعلیم، صحت اور انسانی زندگی کی بنیادی مسائل اور ضروریات کے حل کا ذمے دار سمجھا جاتا ہے، مگر… غزہ میں کیا ہورہا ہے؟ اور یہ عالمی ادارہ خاموش کیوں ہے؟ کیا اسے یہ علم نہیں ہے کہ غزہ کی پٹی میں حالیہ اسرائیلی جارحیت غزہ کے بچوں اور ان کے خاندانوں پر تباہ کن اثر ڈال رہی ہے؟ وہاں معصوم بچے تشویشناک شرح سے جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اب تک 7000 سے زیادہ بچے شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں 1.7 ملین سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، جن میں سے نصف تعداد بچوں کی ہے۔ ان کے پاس پانی، خوراک، ایندھن اور ادویات تک رسائی نہیں ہے۔ ان کے گھر تباہ ہو گئے ہیں۔ ان کے خاندان ٹوٹ گئے اور سب سے دکھ بھی بات یہ ہے کہ تمام جنگوں میں بچوں کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ جنگوں کے بھی اصول ہوتے ہیں کسی بھی بچے کو ضروری خدمات سے محروم نہیں کیا جاسکتا کسی بھی مسلح تصادم میں کسی بھی بچے کو یرغمال یا کسی بھی طریقے سے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

غزہ میں جو کچھ بھی ہورہا ہے عالمی ادارہ یونیسف کہاں کھڑا ہے؟ بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق اسپتالوں اور اسکولوں کو بم دھماکوں سے محفوظ رکھا جانا چاہیے اور انہیں فوجی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس تشدد کی قیمت بچوں اور ان کی برادریوں کو آنے والی نسلوں تک برداشت کرنی پڑے گی یہ سب دکھ آج کل غزہ میں دیکھے جارہے ہیں، اسی ماہ کی گیارہ تاریخ کو یونیسف کی 77 ویں سالگرہ ہے، اس کے بنیادی فرائض میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ بچوں کے خلاف تشدد کو روکنا اور بچوں کی مکمل حفاظت کرنا، ان کے حقوق، حفاظت، فلاح و بہبود اور آس پاس کے بچوں کی صحت کا خیال رکھنا۔ کیا یہ کام ہورہا ہے؟ یونیسیف کا ادارہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یو این انٹرنیشنل چلڈرن ایمرجنسی کے شعبے میں کام کرنے کے لیے بنایا تھا11 دسمبر 1946 کو فنڈ کے ذمہ یہ کام تھا کہ امداد، خوراک، لباس فراہم کرنے کے لیے اور زندہ رہنے والے بچوں کی مدد کے لیے کام کرے گا، اب تو غزہ میں شہید ہوجانے والوں بچوں کی تدفین بھی ممکن نہیںرہی‘ زندہ بچوں کا خیال رکھنا تو دور کی بات ہے۔

ان ممالک میں، خاص طور پر یورپی ممالک، جو دوسری دنیا سے تباہ ہو چکے تھے۔ یہ ادارہ اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دنیا کے مالک اسے فنڈز دیتے ہیں لیکن یہ فنڈز اسرائیل کی جارحیت روکنے میں ناکام ہے؟ یا جارحیت بڑھانے اور برقرار رکھنے کے لیے کام آرہا ہے اور مدد گار بن رہا ہے۔ یہ عالمی ادارہ بچوں کے لیے خوراک اور امداد کا ذمہ دار ہے ان کے حقوق اور تعلیم یونیسیف کی ذمے داری میں آتے ہیں، اس کے اصول وضح کیے گئے ہیں، یہ ادارہ کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک سے بچوں کو محفوظ رکھنے کا ذمہ دار ہے۔ بچوں کے بہترین مفادات کا نگہبان ہے اور بچوں کے حقوق کو یقینی بنانا اس کی ذمہ داری ہے۔ بچوں کی زندگی اور ترقی اور بقاء اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے سماجی، ثقافتی، تعلیمی، سیاسی اور شہری حقوق سے معاشی حقوق کے لیے بچوں کے حقوق کا تحفظ شامل ہے۔ جیسے ضروری اشیاء تک رسائی خوراک، رہائش، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور صاف پانی کے ساتھ ساتھ کسی بھی مشکل سے حفاظت کے طور پر استحصال سے بچانے کی کوشش اور تحفظ فراہم کرنا‘ کیا اس ا دارے نے اسرائیل کی راہ روکی ہے؟‘ اگر اس ادارے کی جاری کسی بھی پریس ریلیز کو دیکھا جائے تو ہمیں یہی اطلاع ملتی ہے کہ:

بچوں کی فلاح و بہبود کے مراکز دنیا بھر میں کام کر رہے ہیں لیکن غزہ میں بچوں کے ساتھ جو ہورہا ہے اس کا ذمے دار کون ہے؟ وہاں موت بانٹی جارہی ہے بچوں سے ان کی زندگی چھینی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں کتنے ممالک ہیں جہاں بچوں کو ملاوٹ شددہ غذا کھانے کو مل رہی ہے، کبھی یونیسف نے اس بارے میں سوچا؟ غزہ کو سامنے رکھ لیں تو ایک ہی بات ہے کہ یہ بچوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ غزہ کی پٹی میں بچوں کے ساتھ دشمنی کے تباہ کن اثر ات بڑ رہے ہیں ان کے لیے زندگی نہیں بلکہ موت ہے اور پانی، خوراک، ایندھن اور دوائی تک نہیں ہے۔ ان کے گھر ہو چکے ہیں۔ تباہ ان کے خاندان ٹوٹ گئے ہیں بچوں کو خوفناک تشدد سے نجات کون دلائے گا؟ ذرا سوچیے۔