عوام کی آواز ضلعی حکومتیں اور مضبوط پاکستان

512

ہفتہ رفتہ کراچی کے مقامی ہوٹل میں ایک سیمینار منعقد ہوا۔ شریک تمام رہنمائوں نے اس بات پراتفاق کیا اگر ملک کو موجودہ دگرگوں معاشی صورتحال سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو ضروری ہے بنیادی جمہوریت کے ذریعے معرض وجود میں آنے والی بلدیاتی حکومتوں کو ضلعی سطح پر مکمل مالیاتی واختیارات و حقوقِ دیے جائیں اور اس کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے اور اس پر عمل درآمد کا موثر طریقہ کار اختیار کیا جائے ایسا کرنا یقینا ملک کو معاشی واقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن کردے گا اور دنیاکے اکثر ممالک میں یہ طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے ان ممالک میں سب سے زیادہ اختیارات بلدیاتی حکومتوں کے پاس ہوتے ہیں شہروں کے انفرا اسٹرکچر کودرست کرنے کاکام وہ انجام دیتے ہیں جس کے لیے ان کو بھرپور فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی دیہی آبادی کی شہروں کی طرف نقل مکانی کے اسباب کا گہرائی سے جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہر سال دیہاتوں سے لاکھوں افراد شہروں کی طرف صرف اس لیے نقل مکانی کرتے ہیں کہ ان کو دیہی علاقوں میں روزگار۔ علاج معالجے اور تعلیم کی بہتر سہولتیں میسر نہیں ہیں وہ دیہات میں رہ کر اپنی آمدنی میں اضافہ نہیں کر سکتے اس کے لیے وہ پردیس کی مشقت برداشت کرتے ہیں۔ اگر مرکزو صوبوں کے وہ اختیارات جومقامی لوگوں کے مسائل کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مثلًا امن و امان کا قیام۔ لوگوں کی سماجی واخلاقی اصلاح مقامی لوگوں کے لیے ان کی اہلیت وتعلیم کے مطابق روزگار وملازمت کی فراہمی ٹیکسوں کی وصولی ذرائع آمدو رفت کی تعمیر خوراک وزراعت کی دستیابی عوامی صحت و علاج معالجے کے لیے اسپتالوں وڈسپنسریوں کا قیام صنعتوں کے قیام وزرعی تجارت کے فروغِ معاشرتی تحفظ اعلیٰ وٹیکنیکل تعلیم کی اعلی سہولتوں کی ذمے داری مقامی حکومتوں کو مکمل مالیاتی واختیاراتی سہولتوں کیساتھ سونپ دی جائے۔ تو دیہاتوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے کا سلسلہ رک سکتا ہے۔

ضلعی حکومتوں کے پاس اتنے وسائل ہوں کہ وہ دیہاتوں میں صنعتوں کے جال بچھا دیں زرعی پیداوار میں اضافے اور بہتری کے طریقے آسان انداز میں کسانوں کو سکھادیں ان کی اہلیت کے مطابق ان کوآگے لے جائیں زندگی کی تمام بنیادی سہولیات ان کو فراہم کریں ان کے لیے تعلیمی ادارے قائم کریں جرائم کے خاتمے کے لیے کمیونٹی پولیس کا محکمہ بھی مقامی حکومتوں کے کنٹرول میں ہونا چاہیے تاکہ معاشرے سے جرائم کاخاتمہ ہوسکے۔ ان ذمیداریوں کو مقامی کونسلرز یوسی وتحصیل سطح کے ناظم اور ضلعی چیئرمین بہت اچھی طرح انجام دے سکتے ہیں اگر ان کو اس سلسلے میں مکمل اختیار ات دیے جائیں اور فنڈز بھی فراہم کیے جائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ حکومتی منصب پر فائز ذمے داران کو ان کی ذمے داریوں اور عوام کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرنے ان کی گفتگو کو سننے، معاملات کو سمجھنے اور حتی الامکان اسے حل کرنے کی جدوجہد اور وہ عوام کے حاکم نہیں بلکہ ان کے خادم ہیں سے آگاہی بہت زیادہ ضروری ہے کیونکہ برطانوی سامراج نے برصغیر پر قبضہ کرنے کے بعد مقامی لوگوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کیا ملک کے نمائندہ افراد کو قید وبند کی مشکلات سے دوچار کیا آزادی وطن کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے بدترین جیلوں کا نظام قائم کیا جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی انہیں جزائر انڈیمان اور کالے پانی کی جیلوں میں بھیجا گیا جن کی آب و ہوا کے متعلق ایک اسکالر رقم طراز ہیںکہ کالے پانی کی جیلیں کلکتہ سے سمندری راستے کے ذریعے تیز رفتار لانچ پر پانچ دن کا سفر ہے دیگر ذرائع آمدو رفت ناپید و نابود ہیں ضروری اشیاء خورو نوش کی دستیابی نہ ہونے کے برابر ہے آب و ہوا ایسی مسموم ہے اگر معمولی زخم یا خراش جسم پر آجائے تو ناسور بن جاتا ہے اور اس مریض کے صحتیاب ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔

اقتدار کا تحکمانہ جابرانہ ظالمانہ سامراجی انداز اب بھی جاری ہیں جبکہ اقتدار پر بیٹھے ذمے دار لوگوں کے لیے اسلامی ہدایات یہ ہیں کہ مظلوم کو انصاف دلانا اور ظالم کو ہر ممکن ذریعے سے ظلم کرنے سے روکنا ارباب اقتدار کی ذمے داری ہے۔ ارشاد ربانی ہے ہم نے رسولوں کو واضح ہدایات کے ساتھ مبعوث کیا ان کے ساتھ کتاب و میزان کو اتارا تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور ہم نے لوہا اتارا اس میں سختی کے ساتھ لوگوں کے لیے فوائد بھی ہیں (سورۃ الحدید آیت نمبر25) اس آیت میں لوہے سے مراد اقتدار کی قوت مراد لی جاسکتی ہے۔

کتاب اور میزان وہ دو چیزیں ہیں جن کے ذریعے اجتماعی عدل و انصاف قائم ہوسکتا ہے۔ مساوات روزگار کے حصول معاشی و اقتصادی ترقی کے لیے تمام افراد سے مساویانہ برتائو کرنا اور ان کی بلاتفریق قوم و قبیلہ رنگ و نسل مذہب و مشرف یکساں مواقع فراہم کرنا حکمرانوں کی بنیادی ذمے داری ہے زبان علاقہ قبیلہ کی بنیاد پر تعصب یا کسی کی برتری اسلامی اصولوں کے تحت سراسر ناجائز ہے یہ تمام اقدار صرف شناخت اور تعارف کے لیے ہیں جیسا کہ سورۃ حجرات میں ارشاد ربانی موجود ہے اے لوگوں ہم نے تمہیں ایک مرد و خاتون سے پیدا کیا پھر قبیلے اور قومیں بنا دیں تاکہ شناخت ہو اللہ کے نزدیک عزت و آبرو کا معیار صرف تقویٰ ہے اسلام نے ضرورت مندوں کی کفالت معاشی ضروریات کی فراہمی کے لیے حکمرانوں کو پابند کیا رسول اکرمؐ نے فرمایا جس کا کوئی وارث نہ ہو میں اس کا وارث ہوں اس کی طرف سے دیت ادا کروں گا امام ابن قیم اس روایت کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ حکومت جس طرح اس شخص کی وارث ہوتی ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو تو اسی طرح وہ اس کا قرض اداکرنے کی بھی ذمے دار ہے جس نے قرض چھوڑا جبکہ اس کا کوئی کفیل موجود نہ ہو۔

عمر فاروقؓ ایک مرتبہ بازار میں گشت کررہے تھے کہ ایک عورت ان کے پاس آئی اور کہا اے امیر المومنین میرے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے اس نے بچے چھوڑے ہیں جو ابھی چھوٹے ہیں میرے شوہر نے کوئی جائدار نہیں چھوڑی اور میرے پاس ان کو پالنے پوسنے ان کی پرورش کا کوئی ذریعہ نہیں میں خفاف بن ایماء غفاری صحابی کی بیٹی ہوں میرے والد بزرگوار حدیبیہ کے سفر میں رسول اکرمؐ کے ساتھ شریک تھے سیدنا عمر نے ایک اونٹ پر گندم کی بوریاں اور پہننے کے کپڑے اور دیگر ضروری سامان لاد کر اونٹ کی مہار اس خاتون کے ہاتھ میں پکڑا دی اور فرمایا اسے لے جائو اس کے خاتمے سے پہلے پہلے مزید سامان تمہارے گھر پہنچ جائے گا۔ اسلامی ریاست میں کسی بھی شخص کو اس کی محنت اور جدوجہد کے مطابق معاشی فوائد حاصل ہوتے ہیں اور بیروزگار معذور بے آسرا افراد کو روزینہ فراہم کرنا بھی حکمرانوں کی ذمے داری ہے مذکورہ بالا سوچ کو اگر ہر سطح کے ارباب اقتدار اپنالیں تو خودکشیوں اور مفلوک الحال و غربت کی وجہ سے بچوں کی خرید و فروخت کا جو سلسلہ پاکستان میں بد قسمتی سے شروع ہوچکا ہے یہ ختم ہوسکتا ہے اقتدار اور مالی فوائد کی نچلی سطح تک منتقلی موجوہ حالات میں عوام کی خوشحالی کا ذریعہ بن سکتی ہے حکمرانوں میں عوام کی خدمت کا جذبہ پیدا ہونا ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اعلیٰ اخلاقی اقدار کو اپنانا نہایت ضروری ہے یہ جاننا بھی لازمی ہے کہ ایک مسلمان حاکم ودیعت کردہ اختیار استعمال کرتا ہے وگرنہ اصل حکومت و اقتدار تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے