نسل کشی کے بعد

526

ستر برس پہلے دوسری جنگ عظیم کے بعد اتحادی ممالک نے لندن چارٹر بنایا اور ایک بین الاقوامی فوجی ٹربیونل قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ نازی جرمنی اور جاپان کے جنگی مجرموں پر مقدمہ چلایا جاسکے تین اقسام کے جرائم طے ہوئے جن کی بنیاد پر مقدمات چلائے جانے تھے ’امن کے خلاف جرائم‘، ’جنگی جرائم‘ اور ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ ان میں ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ لندن چارٹر میں انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں جنگ سے پہلے یا اس کے دوران کسی بھی ’شہری آبادی کے خلاف قتل و غارت، غلامی، ملک بدری اور سیاسی، نسلی یا مذہبی بنیادوں پر ہونے والے ظلم و ستم اور دیگر غیرانسانی سلوک‘ شامل تھے۔ تنازعات کو کنٹرول کرنے والے موجودہ قوانین جنگ میں ہونے والے ہولناک جرائم سے نمٹنے کے لیے ناکافی تھے لہٰذا نئے قانون بنائے گئے انہیں’بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین‘ کہا جاتا تھا۔ مقصد یہ طے کرنا ہے کہ مسلح تصادم کے وقت بھی شہریوں، طبی عملے، بچوں اور نہتّے لوگوں کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ اس دوران کیا کیا جاسکتا ہے اور کیا نہیں کیا جاسکتا۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کا مقصد مسلح تصادم کو کنٹرول کرنا بھی ہے، یہ قوانین اس وقت غزہ کی ہولناک صورتحال پر لاگو ہوتے ہیں۔ اس تنازع میں اسرائیل جارح ہے، وہ انسانی حقوق کے قوانین میں شامل 21 قوانین کا دستخط کنندہ ہے اور ان کی توثیق کرچکا ہے۔ ان قوانین میں عام شہریوں سے متعلق جنیوا کنونشن، بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن، جنگی قیدیوں سے متعلق جنیوا کنونشن، مسلح تصادم میں بچوں کی شمولیت سے متعلق اختیاری پروٹوکول، بعض روایتی ہتھیاروں سے متعلق کنونشن، کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق کنونشن، ثقافتی املاک کے تحفظ سے متعلق ہیگ پروٹوکول اور نسل کشی کی روک تھام اور سزا سے متعلق کنونشن شامل ہیں۔ یہ قوانیں اسرائیل پر نہتّے شہریوں بالخصوص بچوں کا تحفظ یقینی بنانا لازمی قرار دیتے ہیں۔ یہ قوانین مسلح تصادم میں ملوث ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ طبی عملے کی حفاظت کی جائے گی، اسپتالوں کو جارحیت سے محفوظ رکھا جائے گا اور جنگ کے دوران ثقافتی املاک کو محفوظ رکھا جائے گا۔

غزہ میں سامنے آنے والی تباہی، قتل و غارت اور بے بسی کی تصاویر دیکھیں۔ غزہ سے آنے والی رپورٹیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ اسرائیل نے منظم طریقے سے غزہ کے تمام اسپتالوں پر بمباری کی ہے اور سیکڑوں ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے کو قتل کرکے ان اسپتالوں کو غیرفعال بنایا ہے۔ غزہ کے قدیم ترین گرجا گھروں میں سے ایک پر بھی بمباری کی ہے جس میں درجنوں پناہ گزین افراد مارے گئے معصوم بچوں، صحافیوں اور امدادی کارکنوں سمیت شہریوں کی ٹارگٹڈ اور نفرت انگیز ہلاکتوں کے باعث اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جو جان بوجھ کر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ اسرائیل نے نسل کشی کی روک تھام اور سزا کے کنونشن کی توثیق کی تھی۔ اس قانون میں ’نسل کشی‘ کی تعریف کسی گروہ کے اراکین کو مارنے، یا انہیں شدید جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچانے کی کوشش کے طور پر بیان کی گئی ہے اور وضاحت کی گئی کہ ’نسل کشی ایک ایسا عمل ہے جو [کسی گروہ کی] تباہی کے لیے انجام دیا جائے‘، اور ’ایسے اقدامات کو مسلط کیا جائے جن کا مقصد کسی مخصوص گروہ میں پیدائش کو روکنا ہو قانون کی اس تعریف کا اطلاق غزہ پر کریں‘ اسرائیل نے قصداً غزہ کو تباہ کرنے کی نیت سے بجلی، مواصلات، پینے کے صاف پانی اور خوراک جیسی بنیادی سہولیات بند نہیں کیں؟ کیا غزہ میں زیتون اور اسٹرابیری کے باغات اجاڑے جب بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مرتکب ہوا ہے۔ نیورمبرگ اور ٹوکیو ٹرائلز کے دوران یہ امید کی گئی تھی کہ ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ دوبارہ کبھی نہیں ہوں گے۔ اسرائیل نے فلسطین میں اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت ان تمام قوانین کی خلاف ورزی کی ہے‘ اب یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ بھارت اور اسرائیل پر ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کا مقدمہ چلنا چاہیے۔