الیکشن کمیشن ساکھ بچائے

490

آئین کی پاسداری کے نام پر انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کے ڈھونگ کے ڈیڑھ ماہ بعد الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ عام انتخابات موجودہ ووٹر لسٹوں پر ہوں گے۔ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی موجودہ نشستیں برقرار رہیں گی اور ہر کام میں تاخیر کرنے والے سرکاری ادارے نے جادوئی انداز میں تمام کام مکمل کرکے نئی حلقہ بندیوں کی فہرست آج 27 ستمبر کو جاری کرنے کا اعلان کردیا ہے اورابتدائی مرحلے کی منظوری دے کر حتمی فہرست ۳۰ ستمبر تک شائع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسے عدالت کا ڈنڈا کہیں یا کسی اور جگہ سے آنے والی ہدایت لیکن بہرحال الیکشن کمیشن کی گاڑی چل ہی پڑی ہے، اس سے قبل بھی الیکشن کمیشن نے کچھ قوانین میں ردوبدل کی خبر جاری کی تھی جس میں سیاسی پارٹی کو بھاری فنڈ دینے والے کے کوائف مانگے گئے تھے۔ اس کے علاوہ پارٹیوں کو گوشوارے داخل کرانے کے حوالے سے ہدایات دی گئی تھیں لیکن تازہ اعلان اور سابقہ اعلان میں ایسا کوئی اعلان شامل نہیں تھا کہ جس سے ایسا محسوس ہوسکے کہ انتخابات شفاف ہوں گے، منصفانہ اور آزادانہ ہوں گے اور کسی کے مطلوبہ نتائج کے لیے نہیں ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے کراچی کے ضمنی بلدیاتی انتخابات کونسلروں اور چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخابات کے لیے ۵ نومبر کی تاریخ مقرر کی ہے اور مخصوص نشستوں کا اعلان ۲۰اکتوبر کے لیے مقرر کیا ہے۔ اس الیکشن کمیشن سے اب تک کراچی کا بلدیاتی انتخاب مکمل نہیں ہوسکا ہے وہ عام انتخابات کیونکر شفاف اور آزادانہ انتخاب کراسکے گا۔ میئر ڈپٹی میئر کے انتخاب کے موقع پر جو کچھ ہوا وہ بھی ساری دنیا نے دیکھا، پورے شہر کی زبان پر دھاندلی دھاندلی کے الفاظ ہیں لیکن الیکشن کمیشن کسی بھی بے ضابطگی سے لاعلم لگتا ہے۔ اس کے پاس جو شکایات ہیں اگر سب کا منصفانہ فیصلہ کردیا جائے۔ میئر کے الیکشن کے وقت چیئرمین اور وائس چیئرمینوں کا بڑے پیمانے پر اغوا کودیکھا جائے تو اس کے نتیجے میں موجودہ میئر کا انتخاب ہی کالعدم ہوجائے گا۔ الیکشن کمیشن کے آلہ کار ہونے کا تاثر اس امر سے بھی ملتا ہے کہ نگراں حکمرانوں کی جانب سے کسی بھی پارٹی یا لیڈر کا نام لے کر یہ کہا گیاکہ اس کے بغیر بھی انتخابات ہوسکتے ہیں اور الیکشن کمیشن اس کا نوٹس نہیں لے رہا۔ نگراں وزیراعطم نے کس بنیاد پر یہ فیصلہ سنا دیا۔ یہ کام برسوں سے ہورہا ہے جب عمران خان حکومت میں تھے تو پہلے سے بتا رہے ہوتے تھے کہ کون کون جیل جانے والا ہے اور پھر وہ جیل چلا بھی جاتا تھا۔ پھر عبوری پی ڈی ایم حکومت کے رہنما پیشگوئیاں کرنے لگے اور اب نگراں وزیراعظم نے کس قانون کے تحت عمران خان کے بغیر الیکشن کی بات کی ہے اگر عمران خان کسی وجہ سے نااہل ہو جائیں تو اور بات ہے ابھی ایساکچھ بھی نہیں ہوا، نگراں وزیراعظم نے فیصلہ سنا دیا یہ الیکشن کمیشن اور عدالتوں کی توہین ہے لیکن دو دن گزرنے کے باوجود کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ وہی ہونے جارہا ہے جو نگراں وزیراعظم نے کہا ہے، تو پھر الیکشن کمیشن خود مختاری کی تہمت لے کر کیوں بیٹھا ہے۔ نگراں وزیراعظم نے اس تناظر میں یہ بات کہی ہے کہ عمران خان کی کامیابی روکنے کے لیے فوج پر نتائج میں ہیرا پھیری کرنے کا الزام لگایا جارہا ہے،یہ بات مضحکہ خیز ہے۔ اس پر بھی دونوں طرح الیکشن کمیشن کو نوٹس لینا چاہیے تھا کہ اس کے دائرہ اختیار میں فوج کیونکر مداخلت کرے گی۔ لیکن دنیا جانتی ہے کہ 2018ء میں پی ٹی آئی چیئرمین کو اقتدار میں لانے کے لیے آر ٹی ایس سمیت سارے حربے استعمال کیے گئے تھے اور سارا الزام جنرل باجوہ پر تھا۔ تو اب اگر وہی کام ان ہی کے خلاف ہونے کا خدشہ ہے تو کیا الیکشن کمیشن اسے روک لے گا۔ یہ ساری باتیں صرف نگراں حکومت کی نیتوں پر شبہات نہیں بڑھا رہیں بلکہ ان سے الیکشن کمیشن کی ساکھ پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ دوسری طرف امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے الیکشن کمیشن سے فوری طور پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جب الیکشن کمیشن انتخابات موخر کرنے کے لیے بتائے گئے اسباب کے باوجود ان پر عمل نہیں کررہا اور انتخابات بھی پرانی فہرستوں پر ہوں گے تو الیکشن کرانے میں کیا قباحت ہے۔ لیکن سراج الحق سمیت تمام فریقوں کا یہ کہنا بجا ہے کہ صاف اور شفاف انتخابات دراصل الیکشن کمیشن کا امتحان ہیں اور اب تک الیکشن کمیشن اس حوالے سے کوئی اچھی شہرت نہیں رکھتا۔بلکہ انتخابات کا نام سن کر لوگوں پر قتل و غارت، ہنگاموں وغیرہ کا خوف طاری ہونے لگتا ہے ۔ ایساکب تک ہوتا رہے گا۔