اسرائیل سے تعلقات۔ مفاد نہیں ایمان کا معاملہ

666

ہر چند برس بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے کا شوشا چھوڑا جاتا ہے اور اس کے ذریعے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ امت مسلمہ کے اندر اس معاملے میں اب کس قدر شعور باقی ہے۔ تازہ واردات اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن کے بیان والی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے ساتھ چھ سات مسلم ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ سعودی عرب کے بعد اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والے ممالک کا تعلق افریقا اور ایشیا سے ہوگا۔ اور حوالہ دیا وزیراعظم نیتن یاہو کا کہ سعودی عرب کے ساتھ امن کا مطلب مسلم دنیا اور یہودیوں کے درمیان امن ہے۔ وزیر خارجہ نے ایک مبہم بیان دیا کہ انہوں نے کئی ایسے مسلم ممالک کے عہدیداروں سے ملاقات کی ہے جن کے اسرائیل سے کوئی رسمی تعلقات نہیں ان کے گزشتہ ماہ کے اس انکشاف کے بعد لیبیا کے وزیر خارجہ نجلا منقوش کو عہدہ چھوڑنا پڑا بلکہ ملک ہی سے بھاگنا پڑا اور اب وہ تحقیقات کا سامنا کررہے ہیں۔ اسرائیل تو اپنا کام کررہا ہے اس کے وزیر خارجہ اور اس کا میڈیا بھی مصروف عمل ہے۔ اسرائیلی حکومت نے سعودی یوم الوطنی پر مبارک باد کا پیغام بھی بھیجا ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل میں تعلقات قائم ہوگئے ہیں۔ حالانکہ سعودی عرب نہ تو اسرائیل سے جنگ کر رہا تھا نہ اس سے کسی امن معاہدے کی ضرورت تھی۔ البتہ سعودی حکرمت نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ فلسطینیوں کے مسئلے کے حل کے بغیر بات چیت کا کوئی امکان نہیں۔ لیکن اسرائیلی وزیر نے یہ شوشا چھوڑا اور پاکستانی اخبارات میں بہت زیادہ اچھلا جس پر اس سے زیادہ تیز رفتار بیان کے ذریعے پاکستان کے نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے ردعمل دیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ پاکستان فلسطینیوں کے مفاد اور پاکستان کے قومی مفادات کے پیش نظر کرے گا اس کو زیادہ واضح طور پر یوں کہا گیا ہے کہ پاکستان اسرائیل سے تعلقات اسی وقت استوار کرے گا جب فلسطین اور پاکستان دونوں کا مفاد ہوگا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ کے دعوے پر جلیل عباسی جیلانی کو وضاحت کرنا پڑی کہ ان کی اقوام متحدہ اجلاس کے موقع پر اسرائیلی وزیر خارجہ سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ سعودی ولی عہد نے بھی دو تین روز قبل امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے نے کے حوالے سے بات چیت ہورہی ہے۔ لیکن انہوں نے بھی فلسطینیوں کے مفاد کی بات کی ہے ان کی مشکلات کم ہونے کی بات کی ہے۔ پاکستان اگرچہ اسلامی دنیا میں اب وہ مقام نہیں رکھتا جو اب سے پندرہ بیس برس قبل رکھتا تھا لیکن پاکستانی عوام کا ردعمل اسرائیل کے حوالے سے ہمیشہ سخت رہا ہے۔ پاکستانی اور سعودی حکام کی جانب سے فلسطین کے مفاد اور پاکستان کے مفاد کی بات کی گئی ہے لیکن اسرائیل محض مفاد کا معاملہ نہیں ہے۔ خصوصاً پاکستانی حکمراں تو ایک ارب ڈالر کے لیے خود ناک رگڑتے اور عوام کو خون تھکوادیتے ہیں انہیں آج دس ارب ڈالر کی پیشکش کی جائے تو یہ پاکستان کے مفاد میں ہی ہوگی لیکن کیا اسرائیل کو دس ارب ڈالر کے عوض تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان تو کیا سعودی عرب او آئی سی سمیت تمام مسلم حکمراں بھی اگر فیصلہ کرلیں اور فلسطینیوں کے مفاد کا نام لیں تو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنا جائز نہیں ہوگا کیونکہ یہ ریاست محض قبضہ ریاست نہیں ہے۔ اس کا براہ راست تعلق اسلام کے خلاف سازشوں اور عزائم سے ہے اس لیے ایسی ناجائز ریاست کو تسلیم کرنا ایمان کے منافی عمل ہوگا۔ خود اسرائیلی پارلیمنٹ کی پیشانی پر کھلم کھلا عزائم کا اظہار ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تل ابیب سے مدینہ منورہ تک اسرائیلی ریاست ہوگی۔ ایسی ریاست کو کسی طور پر بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسرائیل مسلم ممالک کا نام لے رہا ہے۔ ذرا وہ مغربی دنیا کا نام لے جو اسے اقوام متحدہ میں باقاعدہ ناجائز قابض ریاست قرار دے چکے ہیں۔ سعودی ولی عبد یا دیگر حکام جس راستے پر جارہے ہیں اور جو کچھ کررہے ہیں وہ محض سیاسی معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کے نتیجے میں خود سعودی عرب میں ہلچل مچ سکتی ہے۔ سعودی عوام کی عظیم اکثریت اسرائیل کے بارے میں وہی رائے رکھتی ہے جو متحارب فلسطینی گروپ اور امت مسلمہ کی سوچی سمجھی رائے ہے۔ ایران تو اس معاملے میں کھلم کھلا اظہار کرتا ہے جبکہ فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت مسلسل جاری ہے۔ اگر بین الاقوامی قوانین کو دیکھا جائے تو افغانستان تازہ مثال ہے وہاں کی حکومت امریکیوں سے باضابطہ مذاکرات کے بعد وجود میں آئی ہے اس پر کسی اقدام کا الزام نہیں ہے ماضی کے الزامات اور مستقبل کے خدشات ہی ظاہر کیے جارہے ہیں اور ان کی بنیاد پر کوئی ملک اسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں خود امریکا افغان قیادت سے کیئے گئے معاہدات سے پھر چکا ہے۔ لیکن یہ حکمران اس وقت امت کی خواہشات امنگوں اور آرزوئوں کا خون کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ لیبیا کے عوام اور حکومت میں تو ابھی کچھ امق باقی ہے کہ اس کے وزیر خارجہ کو ملک چھوڑنا پڑا اور انہیں اب تحقیقات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے جو لوگ کچھ کرسکتے تھے وہ 9 مئی کو بنیاد بناکر اپنے ہی ملک کے عوام سے جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ، حکومت، نگراں، ممکنہ حکومت اور اپوزیشن سب کے سب 9 مئی کا جہاد کررہے ہیں۔ عین اسی وقت انتخابات کا ڈول بھی ڈالا جاچکا ہے اسی طرح سعودی ولی عہد بھی ایسا کوئی خیال بھی ذہن میں نہیں رکھتے ہوں گے کہ وہاں لیبیا جیسی کوئی صورت پیدا ہوسکتی ہے ساتھ یہ یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کا اگلا میدان جنگ پاکستان سے مشرق وسطیٰ تک ہی ہے اس علاقے میں بڑی جنگیں ہونی ہیں اور عوام کے اٹھنے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ پاکستانی حکمراں افغان حکومت کو تو غیر ملکی دبائو کی وجہ سے تسلیم نہیں کرتے اور اسرائیل کو قومی مفاد میں تسلیم کرنے کی بات کرتے ہیں حالانکہ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں سراسر پاکستان کا مفاد ہے۔ تجارتی اعتبار سے بھی دفاعی اعتبار سے بھی دونوں ملکوں میں تعلقات ہوں گے تو کسی کو پاکستان میں اور پاکستان سے کسی کو افغانستان میں کارروائی سے روکا جاسکے گا۔ بیانات سے تو کوئی کام نہیں ہوتا اور جلیل عباس صاحب محض نگراں وزیر خارجہ ہیں وہ صرف رسمی باتوں پر اور پاکستان کی نمائندگی کے لیے نشستیں بھرنے کا کام کریں اسرائیل کو تسلیم کرنے جیسے بھاری فیصلوں پر لب کشائی ان کے قد سے بلکہ پوری نگراں حکومت کے قد سے بہت اونچی ہے قوم اسے ایمان کا معاملہ سمجھتی ہے مفادات کا نہیں۔ یوں بھی پاکستان کے حکمرانوں نے ہمیشہ قومی مفاد کے نام پر قوم کا سودا کیا ہے مہنگائی بے روزگاری بدامنی سب برداشت کرلی جائے گی لیکن قوم امت مسلمہ کے قلب میں اسرائیلی خنجر کو کسی طور پر قبول نہیں کرے گی۔