پاکستانی پارلیمانی سیاسی نظام کا تنقیدی جائزہ اور تجاویز 3

771

۷۔ ججوں کے مس کنڈکٹ اور کرپشن پر احتساب کا طریقہ نہ سارا کا سارا جج کے پاس ہو اور نہ سارا کا سارا حکومت کے پاس۔ ایک توازن درکار ہے جس کی وجہ اوپر لکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تبھی امریکا میں صدر ہی عدالت عظمیٰ کے جج نامزد کرتا ہے اور امریکی سینیٹ کی جوڈیشری Judiciary کمیٹی جو سینیٹ میں حکومتی اور اپوزیشن کے برابر ارکان پر مشتمل ہوتی ہے وہ جائزہ لے کر ججوں کا نام منظور یا واپس صدر کو بھجوا دیتی ہے۔ یہی معاملہ ریاستوں کی عدالتوں کا ہوتا ہے۔ ججوں کا مواخذہ بھی امریکی کانگریس یعنی پارلیمنٹ کرتی ہے۔ فیڈرل اور اسٹیٹ ججوں کے خلاف شکایتوں کے سننے اور اس پر عمل درامد کے سارے اصول امریکی کانگریس بناتی ہے۔ اس میں وہ ریٹائرڈ جج یا موجود سینئر جج سے ضرور رائے لیتی ہے تاکہ اس معاملے میں ایک توازن برقرار رہے اور نہ عوامی نمائندگان کسی ضرورت سے زیادہ طاقت کی وجہ سے ججوں کو تنگ اور دبائو میں لانے کی کوشش کریں اور نہ ان کے ہاتھ اتنے بندھے ہوں کہ جج اپنے کسی جج بھائی کی جائز شکایت بھی سننے کے لیے بھی تیار نہ ہوں اور کوئی کارروائی عمل میں ہی نہ لائی جاسکے۔

۸۔ تو یہ کہنا کہ عدلیہ کا شعبہ انتظامی ہو حکومت سے بالکل الگ تھلگ ہو صرف آزادانہ اور عادلانہ فیصلوں کے عمل میں لانے کے حوالے سے ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ ہر جگہ کی طرح عدالتوں میں بھی پیٹی بند بھائیوں والا نظریہ حرکت میں آ سکتا ہے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری اور جسٹس فائز عیسیٰ کے معاملات جس طرح سپریم جوڈیشل کونسل میں چلے وہ ایک مبینہ طور پر اشارہ ہیں۔ ججوں کا مواخدہ کرنے کے اختیارات امریکا کی طرح برطانیہ میں بھی پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے۔

۹۔ لیکن پاکستان کے خاص حالات میں جب سیاست اور سیاست دانوں کا معیار انتہائی گھٹیا اور برباد ہے راقم یہ سمجھتا ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان کو کلی طور پر ججوں کے تقرر اور مواخدے کے اختیارات دینا اس عمل کی غیر جانبداری، شفافیت اور آزادی کو متاثر کرے گا۔ پاکستان میں ججوں کے تقرر میں پارلیمانی کمیٹی بھی موجود ہے لیکن اس کی سفارشات اگر جج تقرر کمیشن نہ مانے تو کمیشن کی بات ہی ماننی پڑتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں جج تقرر کمیشن ہی طاقتور ہوتا ہے جس میں عدلیہ کے ججوں کی غالب اکثریت ہوتی ہے چنانچہ پلڑے کے اس جھکائو کو بھی بوجوہ حل کرناضروری ہے۔

تجاویز: اس حوالے سے راقم کا خیال ہے کہ صدر پاکستان جو کہ ایک عوامی عہدہ ہے، عوامی اس لیے کہ تمام اسمبلیوں اور سینیٹ کے عوامی نمائندے ہی صدر کو منتخب کرتے ہیں اور جس طرح پہلے کہا گیا کہ صدر کے عہدے کو مزید غیرجانبدار بنا کر اگر اسے یا اس کے مقرر کردہ نمائندے کو عدالت عظمیٰ اور صوبائی ججوں کے تقرر کمیشن میں شامل کرلیا جائے تو یہ بہت زبردست اور کارگر عمل ہو سکتا ہے۔ اس وقت نو رکنی کمیشن میں صرف وزیر قانون اور اٹارنی جنرل ہی وہ افراد ہوتے ہیں جن کو حکومت مقرر کرتی ہے۔ ایک پاکستان بار کونسل کا صدر ہوتا ہے۔ باقی چھے لوگ جج ہی ہوتے ہیں۔ صد ر کے مقرر کیے گئے دو یا تین ارکان شامل کرنے سے اس کمیشن کے توازن میں ایک واضح غیر جانبداری آجائے گی۔

ججوں کے خلاف ریفرنس بھیجنے میں بھی صدر آزاد ہو وہ حکومت کے مشورے کا پابند نہ ہو۔ سپریم جوڈیشیل کونسل میں صرف جج نہ ہوں بلکہ وزیر قانون اور صدر کے دو یا تین نمائندے بھی ہوں۔ نمائندوں کی اہلیت بہت معیاری ہونی چاہیے جو سپریم جوڈیشیل کونسل کی کارروائی کا جائزہ لیں اور صدر کو رپورٹ کریں۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ لازماً سالانہ رپورٹ صدر پاکستان کو بھیجیں اور کم از کم چھے ماہ میں ایک بار عدالت کی انتظامی کارکردگی اور اس میں بہتری لانے کے لیے ملاقات کریں۔ آئین میں ترامیم کچھ ایسی کی جائیں کہ صدر اور چیف جسٹس مل کر حکومت کو مجبور کریں کہ وہ وفاقی اور صوبائی عدالتی نظام میں بہتری اور سہولیات میں اضافے کے لیے فنڈز مہیا کرسکیں اور اسے چیف جسٹس کے احکامات کے مطابق خرچ کرسکیں۔

چھٹی بات: صدر کا فیڈرل سروس پبلک کمیشن، الیکشن کمیشن کے عہدیداران کے تقرر میں بھی اہم کردار ہونا چاہیے۔ عدل کے متقاضی اتنے بڑے اداروں کو صرف وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے ہاتھوں میں نہیں دیا جاسکتا۔ اس پر مزید سوچ و بچار کرکے صدر کے عہدہ بہت کارآمد بنایا جاسکتا ہے۔ ورنہ یہ شہنشاہوں والا ایوان صدر صرف شاہی بگھی چلانے اور عوامی مکھی مارنے ہی کے کام آتا رہے گا۔

ساتویں بات: راقم کا یہ پختہ خیال ہے کہ نظام کوئی بھی ہو اگر صحیح شخصیات صحیح طریقے سے صحیح منصب پر مقرر نہیں ہوں گی تو وہ کسی بھی نظام کو سست، ناکارہ، کرپٹ اور برباد کر سکتے ہیں۔ نظام کے ذریعے بھرپور کوشش کی جائے کہ اہل افراد کو ہی مناصب پر فائز کیا جاسکے۔ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن سوچ و بچار اور محنت سے کافی حد تک اس پہ قابو پایا جا سکتا ہے۔ آئین کاآرٹیکل 62 جو کہ اہلیت کا معیار مقرر کرتا ہے اس کو خوب سے خوب تر بنانا پڑے گا سخت سے سخت تر کرنا پڑے گا۔ واضح رہے یہ پارلیمنٹ کی ارکان ہی ہوتے ہیں کہ جو وزیراعظم بنتے ہیں وزراء بنتے ہیں اسپیکر بنتے ہیں، سینیٹ کے چیئرمین بنتے ہیں اسی اصول کے تحت صدر بھی آرٹیکل 62 پر پورا اترنا چاہیے۔ اگر آئین کے آرٹیکل 62 کو اسلام کے اخلاقی قوانین سے قریب تر کر دیا جائے اور اسے ٹھوس یعنیTangible and Measurable انداز میں ڈیفائن کیا جائے تو پاکستان کا سیاسی نظام بہت بہتر ہوسکتا ہے۔

آٹھویں بات: آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ پر راقم عنقریب تجاویزات دینے کی کوشش کرے گا۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتیں جو سیاسی نظام کی انتہائی اہم اکائیاں ہیں۔ ان کے حوالے سے بھی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ جس میں اس بات کی کوشش کی جائے کہ اسمبلیوں میں متوسط طبقات کی نمائندگی غالب اکثریت میں ہو۔ ایک مضبوط قانون بنا کر ہی یہ لازم کیا جاسکتا ہے۔ قانون بننے کے بعد اس قانون کے ٹوٹنے کی صورت میں کوئی بھی عدالت میں چیلنج کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو صرف اس لیے مستعفی ہونا پڑا کیونکہ آرٹیکل ۹۱ (۹) کی رو سے وزیر خزانہ اگر پارلیمنٹ کا رکن نہیں ہے تو اسے چھے مہینے کے اندر اندر پارلیمنٹ کا رکن بننا پڑتا ہے۔ حفیظ شیخ پی ٹی آئی کی طرف سے سینیٹ کا بدنام زمانہ الیکشن یوسف رضا گیلانی سے ہار گئے تھے۔