پاکستانی پارلیمانی سیاسی نظام کا تنقیدی جائزہ اور تجاویز2

874

تیسری بات۔ صوبوں کے موجودہ جغرافیہ کو قائم رکھتے ہوئے ڈیویژن کی سطح پر سارے ضروری حکومتی ادارے اور دفاتر قائم کیے جائیں جیسے جنوبی پنجاب میں کرنے کی کوشش کی گئی۔ صوبوں میں تمام ڈیویژن کے لیے پہلے قومی اور پھر صوبائی سطح پر قوانین بنائے جائیں جو یہ لازم بنائیں کہ صوبائی مالیاتی کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے جس کے تحت ہر ڈیویژن کو یا لوکل گورنمنٹ کے نظام کے مطابق صوبائی بجٹ میں سے عدل کے ساتھ فنڈز دیے جائیں۔ حکومتیں بنانے والی جماعتیں کسی علاقے کے ساتھ ناانصافی نہ کرسکیں۔ جیسے اٹھارہویں ترمیم میں سندھ (پی پی پی) اور کے پی کے (اے این پی اور جے یوآئی) کی پارٹیوں نے اپنے تئیں بہت عقل مندی کا کام کیا اور وفاق کو وسائل کی تقسیم پر مجبور کیا تو کیا صوبوں کے اندر یہ کام نہیں ہونا چاہیے؟ تاکہ محرومیاں اور غصہ کم ہو جو صوبے نہ بنانے سے پیدا ہورہا ہے۔ جنوبی پنجاب کے لیے جتنا اتفاق رائے اور وسیع القلبی پیدا ہو چکی ہے اس کے بادجود اگر جنوبی پنجاب کا صوبہ بدستور ’’دلی ہنوز دور است‘‘ ہے تو باقی صوبوں کی تقسیم پر تو خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔ چیزوں کو پیچیدہ بنائے بغیر بھی نسبتاً چھوٹے فیصلوں سے بھی بہت دور رس نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
چوتھی بات۔ امریکی نظام حکومت میں ایک ہی چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے جو صدر ہوتا ہے۔ ویسٹ منسٹر پارلیمانی نظام میں برطانیہ والوں نے اپنی بادشاہت کو عزت دینے کے لیے انہیں سربراہ ریاست بنا کر نمائشی عہدہ دیا۔ لیکن پاکستان کو تو کوئی ایسی مجبوری نہیں تھی۔ پھر پاکستان میں صدر کے عہدے کا کیا کرنا ہے؟ پارلیمانی نظام میں ساری طاقت وزیر اعظم کے پاس ہوتی ہے۔ صدر گنتی کے چند کاموں کے علاوہ کوئی کام کوئی قدم وزیر اعظم کے مشورے کے بغیر نہیں اٹھا سکتا۔ حتیٰ کہ گنتی کے کرنے والے چند کاموں میں بھی آئین میں یہ شقیں موجود ہیں کہ صدر کے وزیر اعظم اور پارلیمنٹ سے کسی معاملے میں اختلاف، کسی قانون پر اعتراض کی صورت میں صدر صرف مشورہ دے کر مراحل کو صرف چند دن طول دے سکتا ہے اور بالآخر آخری حکم وزیر اعظم اور پارلیمنٹ ہی کا ہوگا۔ یہ عہدہ ۹۹ فی صد نمائشی ہے لیکن اسے ریاست کا سربراہ، وفاق کی علامت اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ صدر کے انتخاب میں ملک کی ساری اسمبلیاں (قومی اور صوبائی) بشمول سینیٹ ووٹنگ کرتی ہیں اور ہر بل صدر کے دستخط سے قانون اور وزیر اعظم کا ہر حکم صدر کے دستخط ہی سے صادر ہوتا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان اور اس کی کابینہ کاغذوں کی حد تک صدر پاکستان کی طرف سے ہی ریاست کا نظام چلاتی ہے۔
صدر چونکہ ریاست کا سربراہ ہوتا ہے اس لیے اخلاقی طور پر اس بات کو ترجیح دی جانی چاہیے کہ صدر کسی سیاسی پارٹی کا عہدے دار نہ ہو اور اس خاص حوالے سے اس کی زندگی اکثر و بیش تر غیر جانبدار رہی ہو گوکہ اس ترجیح و تعریف کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ آصف زرداری اور عارف علوی اس کی تازہ مثالیں ہیں۔ تو صدر تو اس عہدے کا کیا فائدہ؟۔ راقم کی نظر میں صدر کے عہدے کو قانونی طور پر مزید غیر جانبدار کرتے ہوئے پاکستان کے مسائل کے تناظر میں بغیر وزیر اعظم کے کام میں رخنہ اندازی اور کسی قسم کی محاذ آرائی، بہت مفید اور کارآمد کام لیے جاسکتے ہیں۔ یہ بات آگے بیان کی جارہی ہے۔
پانچویں بات: صدر کے عہدے میں ریفارمز کرکے اس سے پاکستان کے عدالتی نظام میں اسٹرکچرل سطح پر زبردست بہتری لائی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے چند باتیں بنیادی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
۱۔ سب سے پہلے تو یہ بتایا جائے کہ خلافت راشدہ میں ججوں کا تقرر کون کرتا تھا۔ امیرالمومنین یعنی خلیفہ وقت یہ فریضہ سرانجام دیتے تھے۔
۲۔ پھر یہ کہ ملک میں مجموعی طور پر آئین و قانون پر عملداری، امن و امان کی صورتحال اور عدل و انصاف کا ذمہ دار کون ہوتا ہے۔ کون ہوتا ہے جو پارلیمنٹ، عوام کو اس معاملے میں جواب دہ ہوتا ہے؟۔ وزیراعظم پاکستان، وزیر قانون، وزیر داخلہ وغیرہ ہی جوابدہ ہوتے ہیں اور اسی طرز پر صوبائی حکومتیں، جنہیں عوام اور میڈیا کے سوالوں کے جوابات دینے پڑتے ہیں۔
۳۔ پھر عدالت عظمیٰ سے لے کر ہائی کورٹ، سیشن اور سول کورٹ تک فنڈز کی فراہمی کی ذمے داری بھی حکومت کے پاس ہوتی ہے جو وہ سپریم اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ طے کرتے ہیں۔
۴۔ جس عہدے اور منصب کو پاکستان کے عوام منتخب کریں اور جو پاکستان کے عوام یا پارلمینٹ کو جواب دہ ہو لوگ اسی کی طرف دیکھتے ہں، اسی کا احتساب کرتے ہیں۔ تو ریاست کا سربراہ یعنی صدر اور عوام کے اعتماد سے آنے والا وزیر اعظم عدل و انصاف کی فراہمی کے عمل سے کیسے لا تعلق رہ سکتے ہیں۔ جج تو ایک طرح سے سرکاری ملازمت کرتے ہیں اور عدل و انصاف سے فیصلے کرنے کی ذمے داری ادا کرنے کے بعد ریٹائر ہوجاتے ہیں وہ اپنی انتظامی کارکردگی، اس میں سست روی، قواعد کو توڑنے مروڑنے میں کسی عوامی عدالت اور پریس کو جوابدہ نہیں ہوتے نہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوسکتی ہے۔ ان کی اور ان کی عدالتوں کی عزت و توقیرو حفاظت کے قواعد و ضوابط اس لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ وہ کسی کے دبائو میں آئے بغیر، شہرت اور خوف کی پروا کیے بغیر عادلانہ اور دلیر فیصلے کریں۔
۵۔ عدلیہ کی آزادی اور توقیر و عزت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ پوری مملکت میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہ ہو جو کہ چیف جسٹس سے یہ پوچھ سکتا ہو کہ ایک سال میں کتنے کیسز نمٹائے گئے۔کیسز کیوں التواء کا شکار ہیں۔ کسی کیس کا نمبر لگنے یا نہ لگنے کا کیا اصول ہے، نچلی عدالتوں کی بہتری اور ان کے ججوں کی انتظامی کارکردگی بہتر بنانے کی کیا رپورٹ ہے، اس میں حکومت کیا مدد کر سکتی ہے، عدالتی سال کتنے دن کا ہو۔ تعطیلات کتنی ہوں۔ یہ خلافت راشدہ کے اصولوں کے بھی خلاف ہے کہ امیرالمومنین ججوں سے انتظامی حوالوں سے بھی کوئی سوال نہ کرسکے۔
۶۔ عدلیہ کی آزادی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جج کی مدت ملازمت، بغیر کسی وجہ برطرفی، تنخواہ حکومت کے ہاتھ میں نہ ہو تبھی پاکستانی آئین میں اس حوالے سے تحفظ موجود ہے۔ لیکن ابھی جب صدر علوی حج کی سعادت حاصل کرنے حجاز میں تھے تو قائم مقام صدر نے وزیر اعظم شہباز شریف کے مشورے پر تمام ججوں کی تنخواہیں بڑھادیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ججوں کی تنخواہ اور مراعات بڑھنے کا عمل کسی قانون کے مطابق خودکار ہو جیسے امریکی آئین و قانون میں متعین ہے جس میں مہنگائی کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔ امریکا میں عدالت عظمیٰ کا جج تاحیات ہوتا ہے جب تک وہ اپنی ذمے داری ادا کرنے کے قابل ہو۔ بنچ بنانے، کیسز کی سماعت کرنے کا پورا اختیار عدالت کے پاس ہو۔ سماعت کے درمیان اور بعد میں دیے گیے حکم کی مکمل تعمیل کی جائے اور اس معاملے میں حکومت مکمل عدالت کے تابع ہو۔ عدالتی فیصلوں پر جج کو مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ کوئی بھی ایسی چیز حکومت کے ہاتھ میں نہ ہو جس سے وہ ججوں کو دبائو میں لا سکیں۔ امریکا میں تو جج اور عدالتی کارروائی کو تحفظ اور سیکورٹی دینے والی فورس بھی الگ ہوتی جو وزارت قانون کے نگرانی میں ہوتی ہے۔