ہر بحران کا ذمہ دار ایک ٹولہ

504

لیجیے اب یہ سوال کھڑا ہوگیا ہے کہ چینی بحران کا ذمہ دار کون ہے۔ ایک جواب تو یہ ہے اسے بھی ملاوئوں اور ٹی ٹی پی پر ڈال دیں۔ پی ڈی ایم پی ٹی آئی پر اور پی ٹی آئی پی ڈی ایم پر لیکن ساجھے کی ہنڈیا پہلے ہی جھٹکے میں چور رہے پر پھوٹ گئی ہے۔ ملک بھر میں چینی کی قیمت 200 روپے سے تجاوز کرگئی اور وزیراعظم ہر روز دو مرتبہ 48 گھنٹے میں ریلیف دینے کے اعلانات کرتے رہے لیکن بجلی کے بلوں کے مسئلے کے حل کے بجائے پٹرول کی قیمت بڑھادی گئی۔ پھر ہڑتال ہوئی تو چینی کی قیمت بڑھادی گئی۔ اب پی ڈی ایم والے ایک دوسرے پر الزامات لگارہے ہیں کہ ذمہ دار ہم نہیں دوسرا ہے۔ مسلم لیگ ن کے وزیر باتدبیر احسن اقبال نے کہا کہ چینی برآمد کرنے کی اجازت پیپلز پارٹی کے وزیر نوید قمر نے دی تھی ن لیگ ساری ذمہ داری نہیں اٹھاسکتی۔ انہوں نے گویا انکشاف کیا کہ ملک کے ہر شعبے میں مافیاز پیدا ہوگئی ہیں ملک کو ان سے آزاد کرانا ہوگا۔ اس پر پیپلز پارٹی کیوں خاموش رہتی چنانچہ پی پی پی کے رہنما نے کہا کہ ہمارے ساتھی وزراء کے خلاف منفی پروپیگنڈہ مہم چلائی جارہی ہے جبکہ احسن اقبال نے کہا کہ ٹیکس لگانے میں تمام اتحادی برابر کے شریک ہیں اور پیپلز پارٹی نے برأت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ معاشی پالیسیوں سے متعلق اہم فیصلے ن لیگ کرتی تھی۔ یہ بالکل وہی کھیل ہے جو پہلے پی پی اور ن لیگ ایک دوسرے کے بارے میں الزامات لگاکر کھیلتے تھے اور پھر پی ٹی آئی نے دونوں کو ذمہ دار قرار دیا کہ ان کے فیصلے عوام مخالف تھے۔ پھر عمران خان نے دونوں ذمہ داروں کے تمام خرابیوں کے ذمے داروں کو اپنے ساتھ ملایا اور چار سال خوب تبدیلی لائے۔ ملک چلانے کے دعویداروں نے علاج یہ سوچا کہ بیمار ہوئے جس کے سبب، اسی عطار کے لڑکے سے دوا لینے کا فیصلہ کرلیا۔ یعنی پی پی پی اور پی ڈی ایم کو ایک کرکے شامل باجوں کو ملایا اور بھان متی کا کنبہ جوڑااورلگے اصلاحی اقدامات کرنے۔۔۔۔ لیکن کیکر کے پودے سے آم امرود اور کوئی پھل کبھی نکلا نہیں اس مرتبہ بھی یہی نتیجہ آیا۔ جہاں تک چینی چوری اور بحران کی بات ہے ان سارے چینی مافیائوں پیٹرول مافیا اور بجلی مافیا کو تو قوم پہچان چکی ہے۔ یہ سب اسمبلیوں میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ عمران خان نے جب پیٹرولیم کی قیمتوں پر کنٹرول کی کوشش کی تو اپنے ہی لوگوں سے ملاقات ہوگئی تھی اور یکمشت 25 روپے لیٹر اضافے کا اعلان بھی انہیں کو کرنا پڑا۔ اب بھی حکمران طبقے میں پیٹرول، سیمنٹ شکر اور ہر قسم کی مافیا موجود ہے۔ پوری معیشت تباہ کرکے یہ سب ایسے معصوم بن رہے ہیں جیسے پہلی مرتبہ صرف 16 ماہ کے لیے اقتدار میں آئے تھے۔ جب بھی کوئی حکومت بنتی ہے وہ تنہا پارٹی کی ہو یا بھان متی کا کنبہ سب کو تمام حکومتی اقدامات اور فیصلوں کا بار اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ مذاق نہیں ہے کہ ایک حکومت گئی اور اس کے بارے میں شور مچانا شروع کردیا گیا کہ ان سے تباہی پھیلائی۔ اور خود حکومت میں آئے تو پورا دور پچھلی حکومت کو الزام دینے میں گزار دیا گیا۔ اس قوم کو بھی عقل کے ناخن لینے چاہئیں کہ کب تک ایسی تقریروں وعدوں اور الزامات پر بھروسہ کرتے رہیں گے جن کا ساٹھ برس میں کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ احسن اقبال صاحب جیسے وزیر باتدبیر تو دس بیس سالہ منصوبہ بندی کرتے ہیں انہیں کیا ہوا کہ اتنا ہلکا بیان دے ڈالا کہ فیصلہ نوید قمر نے کیا تھا۔ کابینہ کے ارکان اجلاس میں ان وزیر ہی کی طرح سورہے تھے جو اکثر اجلاس میں سونے میں مشہور ہیں۔ یہ سو نہیں رہے ہوتے بلکہ یہ ایوان کے ٹھنڈے ماحول اور ان مرغن غذائوں کا اثر ہوتا ہے جو وہ قوم کے غم میں پیٹ بھر کر کھاتے ہیں۔ احسن اقبال پیپلز پارٹی کے ترجمان اور باقی سارے شامل باجے اس سارے ڈرامے کے شریک ہیں جو جو پارٹی یا فرد حکومت یا حکومتی اتحادی کا حصہ تھا وہ چینی بحران کا ذمہ دار ہے۔ پاکستانی قوم اس پرانے نوسربازی والے ڈرامے کو تو کم از کم پہچان لے یہ لوگ بے شرمی سے جھوٹ بولتے ہیں۔ ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں اور ایک ساتھ بیٹھ کر عوام کے خلاف قانون سازی کرتے ہیں۔ پیٹرول، بجلی، گیس کے نرخوں میں اضافہ، ڈالر کے ریٹ میں اضافہ چھوٹے بڑے ہر ادارے اور ہر کام میں بدعنوانی ان ہی کا خاصہ ہے۔ یہ جو اپوزیشن حکومت پر اور حکومت اپوزیشن پر کرپشن کے الزامات لگاتی ہے یہ جھوٹ تو نہیں ہوتے یہ سب چونکہ سارے کاموں میں شریک ہوتے ہیں اس لیے انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کرپشن کیسے ہوتی ہے اور کون کون کرتا ہے۔ جب لوٹ کے مال میں تقسیم پر جھگڑا ہوتا ہے تو ایک دوسرے کے پول کھولتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سابقہ حکومت کے بڑے حصے دار تھے اور اب کون نہیں جانتا کہ چینی کون کھاگیا۔ کس کو برآمد سے فائدہ ہوا اور کس کو درآمد کرکے وہی چینی مہنگی بیچنے کا فائدہ ہوگا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ عدلیہ کا اعتبار بھی اٹھ گیا ہے ورنہ تحقیقات کریں تو پتا چلے گا کہ چینی برآمد ہوئی ہی نہیں تھی۔ کاغذ میں برآمد اور کاغذ میں درآمد کرکے کھربوں روپے عوام سے لوٹ لئے گئے۔ گزشتہ چالیس سال کے حکمرانوں کا کچا چٹھا نکالیں ان میں سے کوئی بھی پاک صاف نہیں نکلے گا۔ ہر ایک کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں پیپلز پارٹی بار بار حکمرانی کرکے ناکام، مسلم لیگ بار بار حکمرانی کرکے ناکام اور اب پی ٹی آئی بھی دس سال کے پی کے اور چار سال مرکز میں حکمرانی کرکے ناکام۔ آنے والے انتخابات ان ناکام لوگوں کے درمیان میں مقابلہ ہوں گے۔ عوام چاہیں تو اس موقع کو استعمال کریں اور تمام ناکام لوگوں کو مسترد کردیں۔