سابق اتحادی حکومت کی دوسری سب سے اہم جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے عام انتخابات 90 دن کے اندر کرائے جانے کا مطالبہ کیا ہے پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے حلقہ بندیوں کے عمل کو مختصر مدت میں مکمل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن مردم شماری کی توثیق کے بعد اعلان کر چکا ہے کہ اب نئی حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرست کی تیاری آئینی مطالبہ ہے اس لیے تین ماہ میں انتخابات نہیں ہو سکتے۔ الیکشن کمیشن عدالت ِ عظمیٰ کے فیصلے کے باوجود پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کرانے سے انکار کر چکا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں سندھ کی نمائندگی کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی مردم شماری کے نتائج کی توثیق کی۔ یہ کام عجلت میں کیا گیا جب کہ ڈیجیٹل مردم شماری پر کراچی، سندھ، خیبر پختون خوا ہر جگہ سے تحفظات ظاہر کیے گئے، لیکن پیپلزپارٹی نے انتخاب میں تاخیر کے لیے سہولت کاری کرتے ہوئے مردم شماری کی توثیق میں حصہ لیا، اب وہ نہ جانے کس خوف سے یا لالچ میں وقت پر انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انتخابات وقت پر نہ ہونے کے نتیجے میں سیاسی بحران دستوری بحران میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ صدر مملکت کا منصب خالی ہو جائے گا، اسی کے ساتھ سینیٹ کے ارکان کی نصف تعداد کی مدت پوری ہو جائے گی اور ان انتخابات کے لیے صوبائی اسمبلیاں موجود نہیں ہوں گی جو حلقہ انتخاب ہے۔ یہ طرزِ عمل سوچا سمجھا محسوس ہوتا ہے تا کہ آئین سے بھی جان چھڑالی جائے یا اسے بھی فوجی عدالتوں میں شہریوں کی پیشی کے قانون کی طرح اپنا تابع بنا لیا جائے۔