فرد اور اس کی اہمیت

814

انسانی تاریخ کے منظرنامے میں فرد کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ یہ فرد ہے جس نے بڑے بڑے فکری و عملی انقلابات برپا کیے، یہ فرد ہے جس کے کارناموں نے تہذیب کو تہذیب اور تاریخ کو تاریخ بنایا۔ یہ فرد ہی ہے جس کی تخلیقی قوت نے دنیا کو ہزاروں ایجادات دیں۔ انسانوں میں انبیا و مرسلین کا مرتبہ سب سے بلند ہے۔ مگر نبی بھی ایک فرد ہوتا ہے۔ یہ سیدنا موسیٰؑ تھے جو شریعت موسوی کی بنیاد اور ایک تہذیب کی اساس ہیں۔ سیدنا عیسیٰؑ کے بغیر عیسائیت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ رسول اکرمؐ امت مسلمہ کی اصل ہیں۔ آپؐ کے بغیر اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کا تصور ناممکن ہے۔ ہندوئوں کی تاریخ میں شری کرشن اور شری رام کی حیثیت بنیادی ہے۔
انبیا و مرسلین سے بہت نیچے بھی فرد کی عظمت کا ڈنکا بج رہا ہے۔ کہنے کو امام غزالیؒ ایک فرد تھے لیکن ان کا فکری کارنامہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے لیے گروہ کیا قومیں اور ملتیں بھی کم پڑ جاتی ہیں۔ مسلم دنیا میں یونانی فلسفے کا اثر اتنا ہلاکت آفریں تھا کہ جس قوم کا اس سے سابقہ پڑا وہ لادین ہوگئی۔ یونانی فلسفے کا یہ عنصر مسلم تہذیب پر بھی اثر انداز ہونا شروع ہوگیا تھا۔ اسی کی ایک مثال یہ ہے کہ کئی مسلم فلسفی یونانی فلسفے کے زیر اثر اس بات کے قائل ہوگئے تھے کہ عالم قدیم ہے اور امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ عالم کو قدیم ماننے والا کافر ہے۔ امام غزالیؒ نے یونانی فلسفے کے اس چیلنج کو قبول کیا اور اس کا ایسا رد لکھا کہ اسلامی فکر کی اساس اور اسلامی تہذیب کی بنیاد کو بچالیا۔
علامہ اقبال نے شیکسپیئر کے بارے میں کہا ہے کہ انسانی فطرت کا ایسا غواص دنیا میں شاید ہی پھر کبھی پیدا ہو۔ اور اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ برطانیہ میں نیوٹن کو ایک ہزار سال کی سب سے بڑی شخصیت قرار دیا گیا۔ اس دوڑ میں شیکسپیئر کا نمبر دوسرا تھا۔ مگر کئی نوبل انعام یافتگان نے کہا کہ یہ انتخاب ٹھیک نہیں۔ اس درجہ بندی میں پہلا نمبر شیکسپیئر کا ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ نیوٹن نے جو کہا ہے ’’دریافت‘‘ کے دائرے میں کہا ہے، لیکن شیکسپیئر کا کارنامہ ’’تخلیق‘‘ کے دائرے میں ہے اور تخلیق کا مرتبہ دریافت سے بلند تر ہے۔ شیکسپیئر کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے بغیر مغربی بالخصوص انگریزی ادب کی عظمت نصف رہ جائے گی۔
ایڈیسن بھی کہنے کو ایک فرد ہی ہے لیکن اس نے دنیا کو تین ہزار سے زیادہ ایجادات دی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ایڈیسن کسی امیر کبیر خاندان میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ اس کا بچپن کسمپرسی میں بسر ہوا۔ وہ ریل گاڑی میں اخبارات اور رسائل فروخت کرتا تھا لیکن غربت نے اس کی راہ میں رکاوٹ بننے کے بجائے اسے عظیم بننے میں مدد دی۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے خراب حالات نے اسے زیادہ سے زیادہ جدوجہد پر مائل کیا، اہم بات یہ ہے کہ ایڈیسن کے بغیر سائنس کے عصر کا تصور محال ہے۔ خاص طور پر ایجادات کے عصر کا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو فرد تاریخ پر چھایا ہوا نظر آتا ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ یہ فرد سے زیادہ خاص بلکہ عظیم لوگوں کا بیان ہے۔ یہ بات ایک حد تک درست ہے لیکن اس سلسلے میں دو نکات پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔ ایک نکتہ تو یہ ہے کہ عظیم لوگ بھی بہرحال ایک فرد ہی ہوتے ہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عام فرد بھی اصولی اعتبار سے ایک ایسی کائنات ہے کہ جو مختلف وجوہ کے باعث دریافت نہیں ہوسکی۔ یعنی امکانات عام کہلانے والے فرد میں بھی موجود ہوتے ہیں مگر یہ امکانات دریافت نہیں ہوپاتے جس کی وجہ سے عام فرد ’’خاص‘‘ نہیں بن پاتا۔ اس حوالے سے اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ صلاحیتوں کے اظہار کی کوئی خاص عمر نہیں ہوتی۔ بعض لوگوں کی عظمت بچپن ہی سے ظاہر ہوجاتی ہے۔ لیکن بعض لوگوں کی صلاحیتوں کا اظہار پختہ عمر میں ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو بچپن اور جوانی میں عام سمجھا گیا ممکن ہے وہ پختہ عمر میں اپنا خاص ہونا ظاہر کرے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہر فرد کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ فرق یہ ہے کہ کوئی ’’موجود‘‘ میں غیر معمولی ہے اور کوئی ’’ممکنات‘‘ میں غیر معمولی ہے۔ کوئی حال میں عبقری ہے کوئی مستقبل میں عبقری ہے۔ یہاں اقبال کا ایک شعر یاد آگیا۔ اقبال نے کہا ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
فرد کی اس کی اہمیت کے باعث فرد اور معاشرے کے درمیان صحت مند تعلق کا قیام ناگزیر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’تعلق‘‘ فرد، معاشرے اور انسانیت کی بقا اور فروغ میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن یہ تعلق جتنا اہم ہے اس کا قیام اتنا ہی دشوار ہے۔ اس کی ایک مثال جدید مغربی دنیا ہے۔ مغربی دنیا میں فرد کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ مغربی دنیا میں آزادی کا مفہوم فرد کی آزادی ہے۔ رائے کا مفہوم فرد کی رائے ہے۔ اس معاشرے میں لباس کیا فلسفہ بھی فرد کی انفرادیت کو پیدا اور نمایاں کرنے کے لیے ہے۔ مغربی دنیا میں فرد کی اہمیت پر اتنا اصرار ہے کہ معاشرہ فرد کے خلاف ایک سازش بن کر رہ گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں فرد اور معاشرے کے درمیان ایک کشمکش برپا رہتی ہے۔ فرد معاشرے کے بارے میں سمجھتا ہے کہ وہ اس کی آزادی ختم یا کم کرنا چاہتا ہے۔ معاشرہ فرد کے بارے میں یہ رائے قائم کرتا ہے کہ وہ اس کے تانے بانے کو سبوتاژ کررہا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مغرب میں فرد کی آزادی اور اس کی انفرادیت ایک سرطان بن گئی ہے۔ ایسا سرطان جس نے مذہب تک کو اضافی یا غیر ضروری بنادیا ہے۔
اس کے برعکس مثال کمیونسٹ معاشروں کی تھی۔ ان معاشروں میں معاشرے یا ریاست کو مرکزیت حاصل تھی۔ کمیونسٹ معاشرے میں ملکیت تھی تو ریاست کی تھی، آزادی تھی تو ریاست کی تھی۔ اختیار تھا تو ریاست کا تھا۔ فیصلہ تھا تو ریاست کا تھا۔ اس ریاست میں فرد کا کام صرف یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو ریاست کے مقاصد اور مفادات کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اہم آہنگ کرے۔ اس معاشرے میں فرد کی ذرا سی آزادی اور ذرا سی انفرادیت ریاست کے خلاف بغاوت کا درجہ رکھتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ریاست فرد اور اسی کی فطری انفرادیت کے خلاف ایک سازش بن گئی تھی۔ اس صورت نے فرد اور ریاست یا فرد اور معاشرے کے درمیان منفی تعلق استوار کردیا تھا۔ مغرب میں فرد کی بے لگام انفرادیت نے اسے تنہا کردیا تھا اور سوشلسٹ یا کمیونسٹ معاشرے میں فرد کی انفرادیت کی نفی نے اسے تنہا کردیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا تو فرد اسے بچانے کے لیے متحرک نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرد کی انفرادی قوت فکر و عمل موجود ہی نہیں تھی۔ ریاست کا جبر عرصہ ہوا ان چیزوں کا خاتمہ کر چکا تھا۔
اسلام کا معاملہ سرمایہ دارانہ اور کمیونسٹ فکر سے مختلف ہے۔ اسلام فرد اور معاشرے کے درمیان ایک توازن استوار کرتا ہے۔ اسلامی فکر ہمیں بتاتی ہے کہ فرد معاشرے کا ’’اجمال‘‘ ہے اور معاشرہ فرد کی ’’تفصیل‘‘ ہے۔ اجمال کا تصور تفصیل کے بغیر نہیں کیا جاسکتا اور تفصیل اجمال کے بغیر اپنا کوئی تصور نہیں کرسکتی۔ اس تصور کے دائرے میں فرد معاشرے کے لیے ناگزیر ہے اور معاشرہ فرد کے لیے ناگزیر ہے۔ مذہبی اصطلاحوں میں گفتگو کی جائے تو اسلامی معاشرے میں فرد اور معاشرے کا تعلق وحدت اور کثرت کا تعلق ہے۔ فرد وحدت ہے اور معاشرہ اس کی کثرت۔ اس تصور کے دائرے میں اصول کے دفاع کی بھی ضمانت موجود ہے اور اصول کے تنوع کے دفاع کی ضمانت بھی مہیا ہے۔ فرد اور معاشرے کے اسی تعلق کی وجہ سے مغربیت مسلم معاشروں میں ’’بغاوت‘‘ کا وہ تجربہ پیدا نہیں کرسکی جو اس نے دنیا کی دوسری ملتوں میں کیا ہے۔ فرد اور معاشرے کے اس تعلق کی وجہ سے کمیونسٹ تحریک بھی مسلم معاشرے میں کبھی ’’عوامی تحریک‘‘ نہیں بن سکی۔
مغربی دنیا میں اگرچہ فرداً اور اس کی انفرادیت کا بڑا غلغلہ ہے لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے یہ حقیقت عیاں ہورہی ہے کہ مغرب میں فرد، اس کے مفادات اور آزادی کا تصور ایک حد تک کمیونزم کے خوف سے متعلق تھا۔ کمیونزم کے خوف کے تحلیل ہوتے ہی مغرب کی ریاست فرد کی آزادی، حقوق اور انفرادیت پر حملہ آور ہوگئی ہے۔ یورپ کے کئی ملکوں میں مسلمانوں کی مذہبی اور تہذیبی آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں اور ان سے اسی طرح ریاست اور اس کے نظریے سے وفاداری کا مطالبہ کیا جارہا ہے جس طرح کمیونسٹ ریاستیں کیا کرتی تھیں۔ دوسری جانب یورپ میں فلاحی ریاست کے تصور پر نظرثانی کرتے ہوئے شہریوں کو فراہم کی گئی بہت سی مراعات واپس لی جارہی ہیں۔ مغرب کا غلبہ عالمگیر ہے۔ چناں چہ ان رجحانات کے اثرات بھی عالمگیر ہوں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مغربی دنیا میں فرد کی آزادی، حقوق اور انفرادیت کا تصور مطلق یا Absolute نہیں تھا بلکہ مشروط تھا۔
تجزیہ کیا جائے تو مغرب کا ’’کارپوریٹ کلچر‘‘ فرد اور اس کی انفرادیت کی نفی کا کھلا اعلان ہے۔ اس کلچر میں صرف کارپوریشن اس کا تشخص اور اس کے مفادات اہم ہیں اور فرد کو محض اپنے معاشی مفاد کے لیے اپنے ہمہ جہتی تشخص اور انفرادیت سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ اس صورت حال کا مفہوم یہ ہے کہ فرد اور اس کی انفرادیت کا ایک حصہ ریاست ہڑپ کرلے گی۔ باقی جو کچھ بچے گا کارپوریٹ کلچر ہضم کرلے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں فرد کے پاس کیا رہ جائے گا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اشیا کو خریدنے اور صرف کرنے کی قوت اور آزادی یعنی ’’صارفیت‘‘۔ لیکن یہ امکان بھی صرف آبادی کے ایک حصے کے لیے ہوگا۔