مَوتُ العَالِم مَوتُ العَالَم

1008

علماء کرام انبیا کے وارث ہوتے ہیں۔ علماء کی زندگی انبیاء کی میراث کی تقسیم میں بسر ہوتی ہے۔ ان کا وجود ستاروں کی مانند ہے جو اپنی جگمگاہٹ اور روشنی سے اندھیروں میں متلاشیان منزل کو ان کے راستوں کا پتا دیتی ہیں۔ جن پر چل کر وہ اپنی منزل مقصود سے آشنا ہوتے ہیں۔ علماء کا وجود جہاں امت کے لیے قیمتی ہوتا ہے وہاں ان کی موت سے بھی ایک خلا پیدا ہوجاتا ہے اور جس کی کمی مدتوں محسوس کی جاتی ہے۔ علماء کرام کا دنیا سے رخصت ہوجانا دراصل قحط رجال کے اس دور میں ایک ایسا نقصان ہے جس کی کمی شاید ہی پوری ہوسکے۔ ایک عالم ربانی کی موت کو عَالَم کی موت قرار دیا گیا ہے۔ عالم ربانی کی موت سے ایسا خلا پیدا ہوتا ہے اور اسلام میں ایسا رخنہ پڑ جاتا ہے جو آسانی سے پر نہیں ہوتا۔
ابوالدرداؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ عالم کی موت ایسی مصیبت ہے جس کا ازلہ ممکن نہیں اور اسلام میں ایسا رخنہ ہے جس کو بند نہیں کیا جا سکتا اور ایسا ستارہ ہے جو مٹ گیا اور ایک قبیلے کی موت ایک عالِم کی موت کی نسبت زیادہ آسان ہے۔ (جامع بیان العلم وفضلہ 179)۔ بلاشبہ عالم کی موت سے اسلامی معاشرے میں ایسا خلا پیدا ہوجاتا ہے جو آسانی سے پر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عالِم پر خاص رحمت ہے۔ یہی سبب ہے کہ زمین وآسمان کی تمام مخلوق عالِم کے لیے مغفرت کی دعا کرتی ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایابے شک لوگوںکو خیرکی تعلیم دینے پر اللہ رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے اور آسمانوں اور زمینوں والی ساری مخلوق حتی کہ چیونٹیاں دریائوں میں تیرتی ہوئی مچھلیاں بھی عالم کے لیے نزول رحمت کی دعا کرتی ہیں۔
گزشتہ دنوں 14اگست کو جس تاریخ کو ملک پاکستان وجود میں آیا تھا اسی تاریخ کو بنگلا دیش میں ورلڈ علماء کونسل کے رکن بنگلا دیش سے تعلق رکھنے والے عالم دین نائب امیر جماعت اسلامی بنگلا دیش علامہ دلاور حسین سعیدی کا 12سال قید میں رہنے کے بعد جیل میں انتقال ہوگیا۔ علامہ دلاور حسین سعیدی کا شمار برصغیرکے بڑے خطیبوں میں ہوتا تھا اور وہ خطابت میں کمال رکھتے تھے۔ سیرت کے جلسوں میں لاکھوں افراد انہیں سننے کے لیے آیا کرتے تھے۔
1996 سے 2008 تک تین مرتبہ وہ بنگلا دیش کی پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ وہ بین الاقوامی شہرت یافتہ اسکالر، متعدد کتابوں کے مصنف تھے انہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کو دنیا میں قائم کرنے کی جدوجہد میں صرف کی۔ ان کی پرجوش اور سادہ تقریروں نے جماعت اسلامی بنگلا دیش کی دعوت کو عوامی بنا دیا تھا۔
1971 کی جنگ کے دوران وہ کراچی میں مقیم تھے اور جامعہ بنوری میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ انہوں نے جماعت اسلامی میں شمولیت بھی 1971 کے بعد کی لیکن بنگلا دیش کی فاسق جابر حکومت نے بنگلا دیش کے دیگر رہنمائوں کی طرح علامہ دلاور حسین سعیدی پر بھی پاکستان سے وفاداری نبھانے کا مقدمہ قائم کیا اور انہیں 12سال سے زائد عرصے سے قید وبند کی مشقت میں رکھا ہوا تھا۔ بھارت کے دبائو پر انہیں سزائے موت سنائی گئی تھی لیکن ان کی سزا کے خلاف بنگلا دیش میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے اور فسادات ہوئے اور کئی لوگ اس احتجاج میں شہید بھی ہوئے۔ ان کی رہائی کے لیے سعودی عرب اور قطر کے علماء کا بھی بہت دبائو تھا۔ علامہ کی عوامی مقبولیت سے خوف زدہ ہو کر حسینہ واجد حکومت نے ان کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا۔ علامہ دلاور حسین سعیدی کردار کے غازی تھے انہوں نے پوری دلیری سے حکومتی جبر کا مقابلہ کیا اور باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا، کسی بھی قسم کی معافی اور جماعت اسلامی سے تعلق ختم کرنے کو وہ بالکل بھی تیار نہیں تھے۔ محرم الحرام کے مہینے میں امام حسین ؓکے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جان جان ِ آفریں کے حوالے کر دی لیکن ایک لمحہ کے لیے بھی وہ پیچھے نہیں ہٹے۔ امام احمد ابن حنبل کا مشہور قول ہے کہ ’’ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ حق پر کون تھا‘‘ بنگلا دیش کے ان عظیم مجاہدوں نے ملک کی بقاء، پاکستان اور اسلام سے محبت کی خاطر اپنی جان مال قربان کیا اور پھانسیوں کے پھندے پر جھول گئے انہیں جیلوں میں اذیتیں دی گئی ان کی جائدادیں چھین لی گئیں لیکن سلام ہے ان مجاہدوں پر کہ انہوں نے اب تک پاکستان سے اپنی وفاداری نبھائی اور پاکستان سے غداری نہیں کی اور ظالم حکومت کے ظلم سہتے سہتے بالآخر اپنے ربّ کی عدالت میں پیش ہوگئے۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
انتقال کے وقت ان کی عمر 80 سال تھی اور انہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال جیل میں گزارے۔ وہ صرف جماعت اسلامی ہی کے نہیں بلکہ ورلڈ علماء کونسل کے بھی رکن تھے ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جو دنیا بھر میں دعوت وتبلیغ کے کام میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ جرأت، بہادری اور دلیری کے اس مجاہد کی شہادت کو قبول فرمائے۔ ان کی تمام نیکیوں کے بدلے جنت میں ان کی بہترین مہمان نوازی کی جائے اور ہم سب کو ایسی ایمان، جرأت اور دلیری والی زندگی عطا فرمائے۔ آمین