حالات، اداراتی زوال اور معاشرتی طبقات

644

آخری حصہ
۲۔ صحافیوں پر نامعلوم افراد کی جانب سے زور زبردستی، دھمکیاں، مار پیٹ تو ماضی میں ہوتی تھیں کچھ کو اغواء بھی کیا گیا لیکن گزشتہ پندرہ مہینوں میں ان واقعات کی تعداد نمایاں اضافہ ہوا۔ سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو پہلے بھی گرفتار کیا جاتا رہا ہے لیکن ان کو نامعلوم افرا د کے ہاتھوں ٹارچر کرنا، بے لباس کرنا، ذلت آمیزرویہ اختیار کرنا کم ہی تاریخ میں ہوا ہے۔ جبری گمشدگی اور اس کے بعد عدالت اور لواحقین کو متعلقہ شخص کی لوکیشن سے بے خبر رکھنا، پولیس کا صورتحال پر بے خبری کا اظہار کرنا یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو پہلے نچلی سطح کے کارکنوں کے ساتھ کراچی اور بلوچستان میں تو دیکھا گیا لیکن ہائی پروفائل سیاسی لیڈران اور صحافیوں سے ساتھ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ عمران ریاض خان کو ساتھ جو معاملہ کیا گیا اس پر سول طبقات خاص طور پر پْر جوش انقلابی کارکنان جس طرح خاموش ہیں وہ نہ صرف معاشرے کی بے حسی کو واضح کر رہا ہے بلکہ المناک سیاسی تقسیم اور اس کے ساتھ پھیلتے ہوئے ماروائے قانون قوتوں کے خوف کو بھی واضح کر رہا ہے۔ سول سوسائٹی ا ور سول طبقات اور انقلابی تحریکات سوچیں کہ صرف ایک طاقت کے خلاف بولنے کی پاداش میں جب کہ عدالتوں کی طرف سے عمران ریاض کے کسی جملے پر غداری کی کاروائی نہ ہوسکی اسے صریح بدمعاشی کے ساتھ پولیس نے گرفتار کیا اور پھر اسے انتہائی مشکوک حالات میں جیل کے باہر سے نامعلوم افراد کہیں لے گئے اور یہ سب جاننے کے باوجود آپ بیس لوگ بھی نہیں گن سکتے جو اس پر غم و غصہ کا ظہار کر رہے ہوں، آواز اٹھا رہے ہوں۔ اتنی بڑی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی پر بھی سسٹم کی معذوری پر خاموش رہنے سے کیسے پاکستان میں غریب، کمزور، ناتواں افراد کے لیے سنجیدہ اور باہدف آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔ نظام و شریعت تو بہت دور کی بات ہے۔ جب آپ سر دست کسی ایمرجنسی صورت حال پر خاموش رہتے ہیں اور کسی نظریاتی میلان، علاقائی جھکائو یا لسانی تعصب کی وجہ سے حسب استطاعت ردعمل بھی نہیں دیتے تو پھر اپنی باری میں بھی عوامی طبقات اور سول تنظیموں کے حوالے سے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کہ جب ظلم ہوگا تو وہ بھی ساتھ دے گا اور وہ بھی کودے گا۔

۳۔ لوگوں پر زمین کا تنگ کرنا۔ بندہ نہ ملنے پر رشتہ داروں کو گرفتارکرنا، عورتوں سے بدتمیزی، کاروبار کو بند کرنا، گھروں میں توڑ پھوڑ کرنا، ایم پی او کے قانون کا ناجائز استعمال کرنا، یہ سب کارستانیاں منظم طریقے سے چند لوگوں کے لیے نہیں بلکہ ایک بڑے پیمانے پر ہوئیں۔

سوچیں اگر کسی بھی جماعت کے سرکردہ رہنما کو گرفتار کر لیا جائے اور اسے نامعلوم افراد کسی نامعلوم جگہ پہنچا دیں تو اس کے لواحقین کس نظام سے مدد چاہیں گے۔ اْس گمشدہ فرد کے گھر والے اور ساتھی کون سا دروازہ کھٹکھٹائیں گے؟ یا اس کے گھر والے، رفقاء ایک دوسرے کو یا پولیس، وکیل اور جج لواحقین کو یہ دلاسہ دیں گے کہ آئیں مل جل کر انقلاب کا انتظار کریں جب انقلاب آجائے گا تو بندہ بھی رہا ہو جائے گا۔

۴۔ ہائی پروفائل قتل اور اقدام قتل کی تحقیقات میں کھلے عام، ہٹ دھرمی کے ساتھ رخنہ اندازی کی گئی۔ ارشد شریف کا قتل ایک انتہائی اندوہناک سانحہ ہے اور ایک بہت بڑا واقعہ ہے جس طرح ارشد شریف اور دیگر صحافیوں پر پاکستان کی زمین تنگ کی گئی اور ان پر غداری کی مقدمات قائم کیے گئے ایسا پاکستان میں کم ہی ہوتا ہے۔ جو صحافی یورپ اور امریکا نکلنے میں کامیاب ہوگئے ان کی جان بچ گئی۔ لیکن ارشد شریف جو یو اے ای گئے وہاں ان کے لیے کیا صورتحال پیدا کی گئی وہ ہم سب جانتے ہیں۔ عمران ریاض خان نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی اور وہ اس کی ایک بہت بڑی قیمت چکا رہا ہے۔ میری نظر میں یہ پاکستان کا ایک بہت ہی بہت ہی زیادہ کرٹیکل اور خطرناک واقعہ ہے۔ تقسیم اور بے حسی، مفادات سے محبت اور دور اندیشی کی کمی کا یہ حال ہے کہ چند ہی صحافی ہیں جو ان معاملات پر مضطرب ہیں، پریشان و بے چین ہیں۔

۵۔ ڈھٹائی اور بے شرمی سے الیکشن نہ کروانے کا تذکرہ اوپر آچکا ہے۔ الیکشن وقت پر نہ ہو پائیں اس کے لیے یہ بندوبست ہر وہ اقدامات کر رہا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ یہ سیدھا سیدھا مشرقی پاکستان کے سانحے کو دوہرانے کی کوشش ہے۔ طاقت کے نشے نے عقل و شعور کو مکمل سلب کرلیے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ نے جب پنجاب اور کے پی کے کے انتخابات آئینی طور پر کروانے میں ڈرامے بازی اور تاخیر کرنے پر سو موٹو لیا تو عدلیہ کو طنز و تشنیع کا ایسا نشانہ بنا یا گیا، ججوں کا نام لے لے کر ان کو ایسا برا بھلا کہا گیا کہ ایسا بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلے نہیں ہوا ہو گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عمران خان کے سیشن جج پر جملے داغنے پر پیشیاں اور معافیاں عدالت عظمیٰ اور سیشن عدالت دونوں میں دیتا رہا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کے زمانے میں عدالتیں جس قدر بے توقیر ہوئی ہیں اس سے پہلے ڈکٹیٹرز کے زمانے میں ایسا ہو سکا۔

۶۔ نو مئی کے واقعات کی بغیر کسی شفاف تحقیقات لوگوں کا فوجی عدالتوں میں سمری ٹرائل، فیئر پراسس اور پروسیجر کے بجائے پہلے سے ایک ذہن کا بنالینا اور اس میں بھی ملزمان کا(Pick and Choose) کیا جانا ایک بے نظیر مثال ہے۔ جیو فینسنگ کے نام پر پولیس کا لوگوں پر ظلم کرنا سینٹرل اور شمالی پاکستان کے لیے نئی بات ہوگی۔ کراچی اور بلوچستان آپریشن پر انسانی حقوق اور عدل کی پامالی پر ہم سب کی خاموشیاں اب رنگ دکھا رہی ہیں۔

۷۔ نگران حکومت کے قوانین میں بھی تبدیلی کی جارہی ہے تاکہ وہ بھی الیکشن رکوانے اور اسے موخر کرنے کے لیے اپنا ’’قانونی حق‘‘ استعمال کر سکیں۔ معیشت کا مسئلہ الیکشن سے بھاگنے کا ایک زبردست بہانہ بن کر سامنے آیا ہے۔

۸۔ کراچی کے میئر کے الیکشن پر کیا بات کی جائے۔ بس یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آخری بار ایسا کب ہوا پاکستان میں۔

۹۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور اسٹیبلشمنٹ کو مزید حکومتی اختیارات دینے کا مطلب اتا ترک کے ترکی کی جانب سفر ہے۔ جس کے نتائج کے بارے میں ہماری دینی جماعتیں، وکلا برادری، صحافتی تنظیمیں اور حکومتی سیاسی جماعتیں بھی اگر چاہیں تو سوچ سکتی ہیں۔

مندجہ بالا باتوں نے عوام خاص طور پر نوجوانانِ پاکستان کا ریاست پر بچا کھچا اعتماد بھی پارہ پارہ کردیا گیا ہے۔ ریاست کو ایک مذاق بنادیا گیا ہے۔ عدالتوں کو تماشا بنا دیا گیا ہے۔ ہر اس شخص کو جو آواز بلند کرتا ہے، کھل کر رائے دیتا ہے، منظم کرکے احتجاج کرتا ہے اس کو نشان عبرت بنایا جارہا ہے۔ پاکستان میں چین، مڈل ایسٹ اور وسط ایشیائی ماڈل لانے کی کوشش ہے۔ سیاسی، مذہبی، دینی جماعتوں کے سربراہوں پر، وکلا برادری، صحافتی تنظیموں اور دوسرے سول طبقات پر دیگر ذمے داریوں کے علاوہ اس وقت اس ابتر صورتحال پر مرکوز (Focused) بات کرنا ان کی اولین ذمے داری ہے۔