مزدوروں کا ساتھی، قاضی سراج

874

قلم کے ذریعے مزدوروں کے حقوق کی آواز اٹھانے والے سینئر صحافی اور روزنامہ جسارت کراچی صفحہ محنت کے انچارچ کے انتقال کی خبر نے پاکستان بھر کے محنت کشوں کو غم زدہ کر دیا ہے۔ قاضی سراج بلاشبہ ایک محنتی، دیانت دار، جفاکش اور درویش صفت کے مالک تھے اور محنت کشوں کی توانا آواز تھے۔ صحافت سے جنون کی حد تک لگائو اور محنت کشوں کے مسائل کے حل کے لیے دن رات محنت اور جدوجہد کرتے تھے۔ قاضی صاحب نے شپ یارڈ میں ملازمت کی اور وہ شمع یونین کے پبلسٹی سیکرٹری تھے۔ اخبارات میں خبروں کی اشاعت کے لیے وہ اخبارات کے دفاتر جاتے رہتے تھے۔ ان کی کیفیت اور محنت کشوں کے ساتھ لگن اور جذبوں کو دیکھتے ہوئے روزنامہ جسارت کراچی کے اس وقت کے ایگزیکٹو ایڈیٹر راشد عزیز نے انہیں جسارت کے لیے صفحہ محنت نکالنے کی پیشکش کی جس کو قاضی سراج نے قبول کیا اور مسلسل 33سال سے وہ یہ صفحہ باقاعدگی سے شائع کررہے تھے اور انہیں محنت کشوں میں بڑی مقبولیت حاصل تھی۔ پاکستان کے صف اول کے ٹریڈ یونینز رہنمائوں پروفیسر محمد شفیع ملک، شمس الرحمان سواتی، سلیم رضا، نبی احمد، خلیل الرحمان، رانا محمود علی خان، ایم اے عظمتی ودیگر کے ساتھ ان کے ذاتی اور گہرے تعلقات تھے انہوں نے اپنے شوق اور جوش کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے شب یارڈ کی ملازمت کو خیر باد کہا اور مکمل طور پر وہ مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد سے وابستہ ہوکردن رات محنت کشوں حقوق کی جدوجہد میں مصروف عمل ہوگئے۔ انہوں نے قلم کے ذریعے محنت کشوں کے حقوق کے حصول کے لیے طویل اور انتھک جدوجہد کی۔ سندھ الکلیز کے محنت کشوں کے پریس کلب کے مظاہرے کے دوران پولیس نے انہیں بھی گرفتار کیا اور آٹھ گھنٹے سے زائدعرصہ تک انہیں قید میں رکھا۔
قاضی سراج نے کبھی بھی محنت کشوں میں تقسیم پیدا نہیں کی اور بلاتفریق وہ سب کے ساتھ رابطے میں رہتے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھاتے۔ انہوں نے ہمیشہ محنت کشوں کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔ جسارت عید ملن اور جسارت ٹریننگ ورکشاپ کے ذریعے وہ محنت کشوں کے لیے لیکچر کا اہتمام کرتے اور انہیں قانونی اور علمی رہنمائی فراہم کرتے۔ مجھے ان کے ساتھ متعدد مرتبہ طویل سفر کا بھی موقع ملا وہ این ایل ایف کے تحت منعقدہ جنرل کونسل اجلاس میں بہت شوق کے ساتھ شرکت کرتے تھے اور کونسل کے تمام شرکاء سے خود رابطہ کرتے ان کے انٹرویو کے ساتھ ان کے مسائل سنتے اور انہیں جسارت صفحہ محنت کے لیے لکھنے کا کہتے اور نئی یونین اور ان کے ذمے داران کی حوصلہ افذائی کرتے تھے۔ قاضی سراج صاحب کو موٹر سائیکل چلانی نہیں آتی تھی جس کی وجہ سے انہیں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن شاباش ہے ان کی ہمت کو کہ پروگرام چاہے سائٹ ایریا میں ہو، کورنگی لانڈھی، بن قاسم، اسٹیل مل، حیدرآباد تک قاضی سراج سب سے پہلے وہاں پہنچے ہوتے تھے۔ قاضی سراج نے وسائل کی پروا کیے بغیر محنت کشوں کی آواز میں قوت پیدا کی۔ بائیں بازو کی سیاست کرنے والے ٹریڈ یونیز رہنمائوں سے قاضی سراج کے بڑے دیرینہ تعلقات تھے اور وہ لوگ انہیں پیار سے کامریڈ قاضی سراج کہتے تھے۔ قاضی سراج بھی خود کو کامریڈ کہلوا کر بہت خوش ہوتے تھے۔ صفحہ محنت پر تمام یونینوں اور فیڈریشنوں کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی فیڈیشنوں کی خبریں رپورٹیں وہ واضح انداز میں شائع کی جاتی تھیں اور پھر یہ لوگ یہ اخبار بیرون ممالک بھی اپنے ہیڈ آفس بھیجتے جس سے جسارت کو بہت تقویت ملتی تھی اور بیرون ممالک میں بھی صفحہ محنت کو بڑی مقبولیت حاصل رہی ہے۔
شعبہ سرکولیشن بھی قاضی صاحب کی ڈیمانڈ پر پیر کا جسارت صفحہ محنت کی وجہ سے زیادہ تعداد میں شائع کرانے کا خصوصی اہتمام کرتا تھا۔ قاضی سراج صاحب وازارت محنت، سیکٹریٹ، تمام سرکاری اداروں اور یونینوں کے پاس باقاعدگی کے ساتھ اخبار پہنچانے کا اہتمام کرتے تھے اور لوگ آج بھی پیر کے صفحہ محنت کا انتظار کرتے ہیں۔ قاضی سراج نے بلاشبہ صفحہ محنت جسارت کو دوام بخشا وہ سچی لگن کے ساتھ اس کام کو ایک مقصد سمجھ کرکرتے تھے۔ کہیں کوئی غلطی یا چوک ہوجائیں تو اکثر خود معافی مانگ لیتے تھے۔ گزشتہ سال جسارت صفحہ محنت کے پروگرام میں مجھے علٰیحدہ لے جا کر کہا کہ آپ مجھے معاف کردیں میں ایک غلط فہمی میں تھا پتا نہیں کب موت آجائیں آپ مجھے معاف کردیں میں نے کہا کہ قاضی صاحب مسئلہ کیا ہے یہ تو بتائیں ’’کہنے لگے کہ مجھے کسی نے یہ بتایا کہ آپ نے میرے بارے میں کسی سے یہ کہا ہے کہ قاضی سراج یونین والوں سے پیسے لیتے ہیں۔ مجھے یہ سن کر بہت افسوس ہوا اور میں نے آپ کے بارے میں بڑی بد گمانی کی اور اب مجھے معلوم چلا کہ وہ بات آپ نے نہیں بلکہ کسی اور نے کہیں تھی اور انہوں نے مجھے خود بتایا ہے اور مجھ سے معافی بھی مانگی لہٰذا آپ بھی مجھے معاف کردیں۔ مجھے آپ کے بارے میں بہت بڑی غلط فہمی ہوگئی تھی عمر کے اس حصے میں ہوں پتا نہیں کب موت آجائے آپ مجھے ابھی ہی معاف کریں۔ میں نے قاضی سراج صاحب کو گلے لگایا اور کہا کہ ہم سب انسان ہیں غلطیاں سب سے ہوجاتی ہیں ایک دوسرے کی غلطیوں سے درگزر کرنا چاہیے۔
بلاشبہ قاضی سراج جیسے لوگ دنیا میں اب ناپید ہوگئے ہیں انہوں نے صحافت کو اپنا مشن بنایا اور غریب مظلوم لوگوں کی خدمت اور مددکے لیے کمر بستہ ہوگئے۔ قاضی سراج نے سیکڑوں کی تعداد میں محنت کشوں کو شعور اور آگہی فراہم کی اور انہیں جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ کراچی ہی نہیں پورے ملک میں ان کے سیکڑوں کی تعداد میں شاگرد ہیں جو محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں اور کوئی پریشانی اور مشکلات میں وہ قاضی سراج سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ قاضی سراج کی اچانک وفات سے پوری محنت کش برادری ایک مخلص دیانت دار ساتھی، دوست اور رہنما سے محروم ہوگئی ہے اور دور دور تک قاضی سراج جیسا رہبر نظر نہیں آرہا ہے۔ ان کے نماز جنازہ میں وی ٹرسٹ کے چیئرمین پروفیسر شفیع ملک، جسارت کے ایڈیٹر مظفر اعجاز، جماعت اسلامی کراچی کے سیکرٹری منعم ظفر، چیف آپریٹو افسر طاہر اکبر، این ایل ایف کے رہنما ظفر خان، خالد خان دیگر مزدور رہنمائوں میں لیاقت ساہی، محسن رضا، علمدار حیدر، متین خان، اسرار ایوابی ماجد محمود کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں ٹریڈ یونین رہنمائوں نے شرکت کی۔ قاضی سراج معاشرے کے مظلوم طبقے کی دستگیری کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا محنت کشوں کی خدمت کو اپنایا۔ الکاسب حبیب اللہ جس کا مطلب محنت کش اللہ کا دوست ہے۔ قاضی سراج نے حقیقی بنیادوں پر اللہ کے دوستوں کی خدمت جی اور جان سے کی وہ مالی طور پر زیادہ مستحکم بھی نہیں تھے لیکن اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا ان کا ایک صاحبزادے کا سی اے مکمل ہونے کو ہے اور باقی دو بیٹے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ قاضی صاحب کا پورا گھرانہ تحریک سے وابستہ ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ قاضی سراج کی تمام لغزشوں کو معاف فرمائے اور جنت الفردوس میں انہیں شہداء اور صدیقین کا ساتھ عطا فرمائے اور مزدور تحریک کو جلد ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔