کراچی کا مقدمہ

817

کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے آخری مرحلے میں میئر کے انتخاب میں الیکشن کمیشن اور ریاستی مشینری کے ذریعے کی جانے والی پیپلز پارٹی کی بدترین دھاندلی اس کے گلے کا پھندا بنتی جارہی ہے۔ ایک شہزادے کی خواہش پر پیپلز پارٹی نے اپنی پوری سیاست دائو پر لگا دی ہے اور اس کی نیک نامی کو بھی بری طرح دھچکا پہنچا ہے۔ جمہوریت بہترین انتقام کا راگ الآپنے والوں نے تو جمہوریت ہی کو بدنام کردیا اور پاکستان ہی میں نہیں پوری دنیا میں پیپلز پرٹی کی اس دھاندلی پر لعن طعن کی جا رہی ہے اور جماعت اسلامی کے مینڈیٹ پر ڈالے جانے والے ڈاکے کے خلاف لوگ شدید مشتعل ہیں اور وہ پیپلز پارٹی کی اس ڈکیتی اور کھلی دھاندلی کے خلاف لوگ جماعت اسلامی کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں اس کا بہترین مظاہرہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں دیکھنے میں آیا جب الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق کی قیادت میں ایک غیر معمولی اور حیران کن حاضری کا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جو کراچی میں پیپلز پارٹی کی بدترین دھاندلی کے خلاف تھا۔ مظاہرہ کے شرکاء بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں تھے اور وہ سب پیپلز پارٹی کے اس غیر جمہوری اقدام کے خلاف بھرپور احتجاج کر رہے تھے۔ جماعت اسلامی کی جانب سے میئر کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن بھی خصوصی طور پر
اس مظاہرے میں شریک ہوئے اور ان کے ولولہ انگیز خطاب نے تو پورے مجمعے کو ہلا کر رکھ دیا۔ حافظ نعیم الرحمن بلاشبہ اہل کراچی کے دلوں کی دھڑکن اور ان کے قائد بن چکے ہیں لیکن اسلام آباد کے احتجاجی جلسے نے تو یہ بات سب پر عیاں کر دیا کہ حافظ نعیم الرحمن کی آواز کی گونج ملک کے کونے کونے تک پہنچ چکی ہے اور سب انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں۔ جس جرأت مندی، بے باکی جوش اور ولولے کے ساتھ انہوں نے مسلسل تین سال تک حق دو کراچی تحریک چلائی ہے ان کے ناقدین بھی ان کی صلاحیتوں کے معترف ہوچکے ہیں۔
حافظ نعیم الرحمن اس احتجاجی جلسے میں شیروں کی طرح دھاڑ رہے تھے اور پیپلز پارٹی کی ظلم وزیادتی ان کی غنڈہ گردی بدمعاشی اور دھاندلی کو سب کے سامنے عیاں کر رہے تھے کہ کس طرح ان کے اتحادی پی ٹی آئی کے چیئرمینوں کو اغواء کر کے انہیں ووٹ ڈالنے سے روکا گیا۔ اسلام آباد میں اتنا بڑا عوام کا سمندر شاید جماعت اسلامی کو بھی اس کی توقع نہیں ہوگی لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی اس دھاندلی کے خلاف پوری قوم جماعت اسلامی کی پشت پر آکھڑی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی نے زور جبر اور دھاندلی کے ذریعے کراچی کا اپنا میئر تو بنا لیا ہے لیکن قوم اس جعلی میئر کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی جو خود کو جمہوریت کا سب سے بڑا چمپئن کہلاتی نہیں تھکتی کراچی کے انتخاب نے تو اس کی ساری قلعی کھول کر رکھ دی کہ وہ کس طرح سے گزشتہ پندرہ برسوں سے اندرون سندھ میں انتخابات جیتی آئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے نادان دوست جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا دار بنے ہوئے تھے انہوں نے پیپلز پارٹی کو ایک دم آسمان سے زمین پر لا پٹخا ہے۔ آصف زرداری بڑے جوش اور ارمانوں کے ساتھ اپنے لاڈلے بیٹے کو پاکستان کا وزیراعظم بنانے کی تگ دور میں لگے ہوئے تھے لیکن کراچی کے میئر کے انتخاب میں ہونے والی اس بدترین دھاندلی اور پیپلز پارٹی کی ہونے والی عالمی سطح پر ذلت ورسوائی نے ان کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا ہے۔ پاکستان میں بھی ان کی اتحادی جماعتوں کے کان کھڑے ہوگئے ہیں اور طلال چودھری، شاہد خاقان عباسی کے یہ بیانات کہ
پیپلز پارٹی کراچی کے بلدیاتی انتخابات جیسی دھاندلی قومی انتخابات میں بھی کرنا چاہتی ہے اور وہ بلاول کو وزیر اعظم بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے اور کراچی کے میئر کے انتخاب میں ہونے والی دھاندلی تو ایک ٹیلر ہے۔ پیپلز پارٹی جس نے پورے سندھ میں کلین سوئپ کیا اور تمام ہی شہروں میں اس کے میئر اور ڈپٹی میئر با آسانی منتخب ہوگئے لیکن کراچی میئر کی شپ کی آرزو اورخواہش انہیں لے ڈوبی ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے اس بدترین دھاندلی میںجمہوری روایتوںکو پیروں تلے کچلا گیا ہے اور قوی امکان ہے کہ چند ماہ بعد ہونے والے قومی انتخابات میں بھی یہ ہی عمل دہرایا جائے گا۔
الیکشن کمیشن اسلام آباد کے دفتر کے باہر اس عظیم الشان اور تاریخی احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کراچی میں شفاف اور غیر جانبدارانہ بلدیاتی انتخابات کرانے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے اور اس کا کردار اور ساکھ سوالیہ نشان بن چکی ہے، کراچی میں میئر کا انتخاب الیکشن کمیشن کے ماتھے کا کلنک بن گیا ہے الیکشن کمیشن بتائے کہ آپ کا آئین کی پاسداری کا حلف کہاں گیا۔ جب آپ عوام کو انصاف نہیں دے سکتے تو ان کے ٹیکسوں سے مراعات اور تنخواہیں کیوں لیتے ہیں۔ کراچی میں یہ کیسا الیکشن تھا کہ9لاکھ ہارگئے اور سوا تین لاکھ جیت گئے۔ آپ ایک شہر میں شفاف الیکشن نہیں کرا سکے تو پورے ملک میں کیسے کرائیںگے۔ سراج الحق نے الیکشن کمیشن پر زور دیا کہ کراچی میئر سلیکشن پراسس کو کالعدم قرار دے کر غائب بلدیاتی نمائندوںکو حاضر کر کے دوبارہ شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔
جماعت اسلامی کے تحت کراچی میں میئر کے انتخاب میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف انتخاب کے اگلے ہی دن پورے ملک میں پیپلز پارٹی کی بدترین دھاندلی اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف پورے ملک میں یوم سیاہ منایا گیا اور کراچی سے لیکر خیبر تک پیپلز پارٹی کی بدترین دھاندلی کے خلاف بھرپور طریقے سے احتجاج کیا گیا۔ کراچی کے میئر کے جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن جہاں اپنے حق کے حصول کے لیے یہ جنگ سڑکوں پرلڑ رہے ہیں وہاں انہوں نے بھرپور قانونی جنگ کی بھی تیاری کی ہوئی ہے اور انہوں نے انصاف کے حصول لیے عدالت سے بھی رجوع کیا ہوا ہے۔ ان کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست کو کراچی کی عوام بڑی امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے کارکنان ان تمام صورتحال پر شدید مشتعل ہیں ان کی مسلسل تین سال کی محنت برباد کردی گئی ہے۔ جماعت اسلامی کے اکابرین نے بڑی ہی مشکل سے جماعت اسلامی کے کارکنان کا سنبھالا ہے اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے کارکنان کا صبر اور تحمل قابل تحسین ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کس حد تک انصاف کی پاسداری کرتا ہے ورنہ عدالت عظمیٰ کے دروازے بھی سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔