آصف زرداری کی آخری خواہش

825

پیپلز پارٹی کے موجودہ گاڈ فادر محترم آصف زرداری طویل عرصہ سے بیمار ہیں، کئی مرتبہ ان کے انتقال کی افواہیں بھی اُڑ چکی ہیں لیکن ان پر وہی محاورہ صادق آتا ہے کہ ’’جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے‘‘۔ یہ افواہیں خود بخود دم توڑ جاتی ہیں اور زرداری اپنی بیماری کے باوجود سیاسی طور پر اتنے متحرک نظر آتے ہیں کہ لوگ ان پر رشک کرنے لگتے ہیں۔ ان کی سب سے اہم اور آخری خواہش یہ ہے کہ ان کا صاحبزادہ بلاول زرداری کسی طرح پاکستان کا وزیراعظم بن جائے، اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ مسلسل سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں، کبھی وہ لاہور جا کر ڈیرہ جماتے ہیں اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کے اثر رسوخ کا اندازہ کرتے ہیں، کبھی وہ دبئی میں میاں نواز شریف سے مذاکرات کرکے پنجاب میں پیپلز پارٹی کے لیے گنجائش نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی وہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں اور اسے باور کراتے ہیں کہ اب کی دفعہ ہماری باری ہے، ہمارے معاملے میں ڈنڈی نہ ماری جائے، آخری چارہ کار کے طور پر ان کی نگاہیں امریکا کی طرف بھی اُٹھ رہی ہیں۔ زرداری اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی حکومت امریکا کی مرضی کے بغیر نہیں بنتی۔ بے نظیر بھٹو بھی دوبارہ امریکا کی حمایت ہی سے برسراقتدار آئی تھیں۔ حالات نے مدافقت کی تو بلاول زرداری بھی امریکا کی حمایت سے وزارت عظمیٰ کا تاج اپنے سر پہ رکھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول زرداری بار بار امریکی یاترا کررہے ہیں، وہ گزشتہ ایک سال کے دوران 6 مرتبہ امریکا جاچکے ہیں، پچھلے دنوں وہ جاپان کے دورے پر تھے کہ وہاں سے اچانک امریکا چلے گئے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان سے کسی صحافی نے پوچھا کہ بلاول امریکا کیا لینے گئے ہیں؟ تو ترجمان نے جواب دیا کہ یہ ان کا نجی دورہ ہے اس لیے وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ دفتر خارجہ کا ترجمان اگر کچھ کہنا بھی چاہے تو وہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ بلاول زرداری کی امریکی یاترا رنگ لاتی ہے یا نہیں لیکن حالات بتارہے ہیں کہ مقابلہ بہت سخت ہے۔ میاں نواز شریف کی وطن واپسی میں تاخیر کا بنیادی سبب ہی یہ ہے کہ وہ کامیابی کی مکمل ضمانت کے ساتھ وطن میں قدم رنجہ فرمانا چاہتے ہیں۔ پاکستان پر حکومت کرنا ان کا اصل مقصود ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ وزارت عظمیٰ طشتری میں رکھ کر انہیں پیش کرے گی تو وہ واپس آئیں گے ورنہ پاکستان کو دور سے سلام ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ میاں صاحب ستمبر میں پاکستان آئیں گے، پارٹی کی انتخابی مہم کی خود قیادت کریں گے، اکتوبر میں عام انتخابات ہوں گے اور میاں صاحب اپنی کامیابی کا جشن منائیں گے۔

لیکن ستارے کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا دعویٰ ہے کہ اگست میں پی ڈی ایم کی حکومت تحلیل ہوجائے گی، نگراں عبوری حکومت بھی بن جائے گی لیکن انتخابات اکتوبر میں ہوتے نظر نہیں آرہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ عمران خان گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔ یہ ہڈی کیسے نکلے گی، کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ بے شک خان کو 9 مئی کے مقدمات میں نامزد کردیا گیا ہے لیکن ان پر فوجی عدالت میں

مقدمہ چلانا اتنا آسان نہیں ہے اس پر شدید عالمی ردعمل آئے گا۔ پاکستان میں وکلا برادری بھی شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف ہے، عدالت عظمیٰ میں بھی یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔ دوسری طرف اگرچہ تحریک انصاف کی لیڈر شپ کا بڑی حد تک صفایا کردیا گیا ہے لیکن اس کا قانونی وجود ابھی تک برقرار ہے، اس پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کو ختم کرنے کے لیے جو ظالمانہ حربے اختیار کیے جارہے ہیں ان کا اثر اُلٹا ہورہا ہے اور اس کا ووٹ بینک بڑھ رہا ہے۔ وہ آئندہ انتخابات میں کھمبے بھی کھڑے کردے گی تو وہ جیت جائیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے تحریک انصاف پر پابندی لگائی جائے اس کا قانونی طور پر صفایا کیا جائے، اس کے انتخابی نشان بلے کو انتخابی نشانات کی فہرست سے خارج کیا جائے پھر انتخابات کرائے جائیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ تحریک انصاف پر پابندی کو پاکستانی رائے عامہ تو کیا عالمی رائے عامہ بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے وفد نے عمران خان سے ملاقات کرکے ملک کی ہئیت مقتدرہ پر واضح کردیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو پاکستان کی ایک اہم سیاسی جماعت سمجھتا ہے اگر اسے انتخابات سے آئوٹ کیا گیا تو پھر دنیا ان انتخابات کو تسلیم نہیں کرے گی اور عالمی سطح پر پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا۔ جبکہ پاکستان اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اِن مشکلات کا سامنا کرسکے۔ اگر صرف آئی ایم ایف ہی اپنا دست ِ تعاون کھینچ لے تو پاکستان کی جان کو لالے پڑ سکتے ہیں۔ اس لیے تحریک انصاف پر پابندی لگانا یا عمران خان کو گرفتار کرکے ان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلانا بھی اتنا آسان نہیں ہے۔

ابھی نہ حکومت تحلیل ہوئی ہے نہ نگراں حکومت بنی ہے نہ انتخابات کا بگل بجا ہے لیکن پی ڈی ایم میں پھوٹ پڑ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی تو ہوا کا رُخ بھانپ کر بہت پہلے پی ڈی ایم سے نکل گئی تھی۔ وہ مخلوط حکومت کا حصہ تو ہے اور اس سے بھرپور فائدہ اُٹھا رہی ہے۔ بلاول زرداری وزیر خارجہ کی حیثیت سے سرکاری خرچ پر پوری دنیا کا دورہ کررہے ہیں اور اپنے عالمی رابطے بڑھا رہے ہیں لیکن حکومت کی ناقص کارکردگی کا بوجھ اُٹھانے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی نظریں وزارت عظمیٰ پر ہیں اور وہ اپنے والد کی آخری خواہش پوری کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن بھی شہباز حکومت پر دبائو بڑھا رہے ہیں وہ صدارت کے امیدوار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف ماضی میں ان سے وعدہ بھی کرچکے ہیں۔ اب مولانا صاحب چاہتے ہیں کہ یہ وعدہ پورا ہونا چاہیے۔ صدر عارف علوی کی مدت پوری ہورہی ہے اور مولانا صاحب کو یقین ہے کہ ان کا دبائو بارآور ثابت ہوگا۔ سنا ہے کہ میاں نواز شریف نے انہیں ملاقات کے لیے دبئی طلب کرلیا ہے جہاں دیگر امور کے علاوہ بھارت کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔

لیکن سچ پوچھیے تو ہمیں فکر ہے کہ کالیا تیرا کیا بنے گا؟۔ بلاول زرداری وزیراعظم بن سکیں گے یا نہیں۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں عوام کا جو کچومر نکلے گا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ انتخابات کب ہوں گے؟ ابھی کچھ پتا نہیں لیکن جب بھی ہوئے اور نتیجہ عوام کی توقعات کے برعکس آیا تو وہ گھمسان کا رن پڑے گا کہ منصوبہ سازوں کی سُٹّی گُم ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اس آزمائش سے محفوظ رکھیں۔