آئی ایم ایف سے معاہدہ اور پلان بی

687

آئی ایم ایف سے نو ماہ کے لیے ایک اسٹینڈ بائی معاہدے نے حکمرانوں میں خوشی کی لہر دوڑا دی ہے‘ وہ اس کامیابی پر ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کر رہے ہیں اور اس بات پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے کہ آئی ایم ایف کے حضور ماتھا ٹیکنے اور ناک رگڑنے کی ان کی کوششیں بارآور ثابت ہوئی ہیں۔ آئی ایم ایف نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا پیش کردہ بجٹ مسترد کر دیا ہے‘ عوام کو دی گئی تمام مراعات منسوخ کر دی ہیں‘ سرمایہ کاروں کے لیے ایمنسٹی اسکیم ختم کر دی ہے‘ روس سے درآمد کردہ تیل پر عوام کو ریلیف دینے کا اعلان بھی ہوا میں اُڑا دیا ہے اور عوام پر مزید اربوں روپے کا ٹیکس لادنے کا حکم دیا ہے جس پر بہ خوشی عمل درآمد کیا گیا ہے۔ اس فرماں برداری کے نتیجے میں آئی ایم ایف پاکستان کو تین ارب ڈالر قسطوں میں دے گا جس کی پہلی قسط ماہِ رواں میں مل جائے گی۔ آئی ایم ایف سمجھوتے کی شرائط پر کڑی نظر رکھے گا اور جہاں اسے یہ محسوس ہوا کہ پاکستان شرائط سے انحراف کر رہا ہے تو وہ یہ معاہدہ منسوخ بھی کر سکتا ہے۔ فی الحال تو یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا ہے۔ ہاں اگر اس نے آئی ایم ایف کے احکامات کو ماننے میں ڈنڈی ماری تو وہ ڈیفالٹ بھی ہو سکتا ہے اور ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سمیت اس کی آزادی و خود مختاری بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر عملدرآمد جوں جوں گے بڑھے گا عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے سمندر میں ڈوبتے چلے جائیں گے‘ ٹیکسوں کی بھرمار اور سب سڈی کے خاتمے کے نتیجے میں ملک میں صنعتی عمل دم توڑ جائے گا اور صنعتیں بند ہو جائیں گی۔ پی ڈی ایم کی حکومت آتے ہی یہ عمل شروع ہو گیا تھا۔ عمران حکومت کے خاتمے کے بعد سوزوکی کمپنی نے کاریں بنانے کا پلانٹ بند کر دیا تھا۔ اب وہ اُسے اکھیڑ کر جاپان لے گئے ہیں۔ یاماہا موٹر سائیکل بنانے کا پلانٹ بھی مدت ہوئی بند ہو چکا ہے اب وہاں خاک اُڑ رہی ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری بھی پچاس فی صد بند ہو چکی ہے جب کہ کورونا کے زمانے میں بھی یہ انڈسٹری پوری استعداد کے ساتھ کام کر رہی تھی اور بیرونی آرڈر کی تکمیل اسے دشوار نظر آرہی تھی۔ اب اس کے پاس کام ہی نہیں ہے۔ پچاس فی صد کارخانوں کو تالے لگ چکے ہیں‘ ان میں کام کرنے والی افرادی قوت بے روزگاروں میں شامل ہو چکی ہے۔ جو ٹیکسٹائل کارخانے کام کر رہے ہیں وہ بھی اپنی استعداد کے مطابق پیداوار نہیں دے رہے‘ ان کی آدھی افرادی قوت فارغ کی جا چکی ہے۔ یہ سب کچھ موجودہ حکومت کا کارنامہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے حکمرانی کرنے کا چالیس سالہ تجربہ ہے۔ شاید اس کا تجربہ اس بات میں ہے کہ عوام کا گلا کیسے گھونٹا جا سکتا ہے اور انہیں مہنگائی اور بے روزگاری کے سمندر میں کیسے ڈبویا جاسکتا ہے۔ حکمرانوں کا یہ تجربہ منہ سے بول رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی معاہدہ نہ ہوتا تو معاشی جادوگر اسحاق ڈار کے پاس پلان بی موجود تھا۔ یہ پلان بی کیا تھا؟ اس کے بارے میں خود اسحاق ڈار نے یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے پاس تین ہزار ارب ڈالر کے اثاثے موجود ہیں یعنی دوسرے لفظوں میں آپ یوں کہہ لیجیے کہ پاکستان تین ہزار ارب ڈالر میں برائے فروخت حاضر ہے۔ اور اسحاق ڈار اپنے پلان بی کے تحت ان اثاثوں کو بیچنا شروع کر دیتے اور قوم کو آئی ایم ایف سے بے نیاز کر دیتے۔ باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ آئی ایم ایف تو محض ایک آڑ ہے‘ قومی اثاثوں کو بیچنے اور رہن رکھنے کا عمل تو اسحاق ڈار اپنے پچھلے دور حکومت سے شروع کر چکے ہیں اب کی دفعہ بڑے بڑے ادارے ان کے نشانے پر ہیں۔ آئی ایم ایف سے ڈیل کے بعد ایک اینکر پرسن نے اپنے ٹاک شو میں اسحاق ڈار سے پوچھا ’’معلوم ہوا ہے کہ اسلام آباد ائرپورٹ آپ نے فروخت کر دیا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’بیچا نہیں‘ آئوٹ آف سورس کر دیا ہے‘‘۔ اس پر اینکر پرسن کی ہنسی چھوٹ گئی۔ آئوٹ آف سورس کرنے کا مطلب فروخت کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن اسحاق ڈار پوری قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ وہ قوم کے تمام قیمتی اثاثوں کو ’’آئوٹ آف سورس‘‘ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سنا ہے کہ ایٹمی اثاثوں کی بھی بولی لگ رہی ہے۔ اینکر پرسن اپنے کسی ٹاک شو میں جب ان سے پوچھیں گے کہ معلوم ہوا ہے کہ آپ نے ایٹمی اثاثے بھی فروخت کر دیے ہیں تو وہ برہم ہو کر جواب دیں گے ’’یہ کس بے وقوف نے آپ سے کہا ہے‘ ہم نے ایٹمی اثاثے فروخت نہیں کیے‘ صرف آئوٹ آف سورس کیے ہیں‘‘۔
محترم وزیر خزانہ یہ سارے پاپڑ اس لیے بیل رہے ہیں کہ حکمران اشرافیہ کی عیاشیوں میں کمی نہ آنے پائے جو ایک ماہر معیشت کے مطابق سالانہ سترہ ارب ڈلر کی ناجائز مراعات حاصل کر رہی ہے۔ ان مراعات میں مفت پٹرول‘ مفت بجلی و گیس‘ مفت ہوائی سفر اور بے شمار سہولتیں شامل ہیں۔ اگر یہ مراعات اور سہولتیں حکمران اشرافیہ سے سلب کر لی جائیں اور ایک عام سرکاری ملازم کی طرح وہ اپنا بوجھ خود اٹھائیں تو پاکستان نہ صرف ایک سال میں خود کفیل ہو سکتا ہے بلکہ قرض لینے کے بجائے قرض دینے والا ملک بن سکتا ہے۔ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون؟ جو طاقت ور لوگ یہ کام کر سکتے ہیں ان کے ہاتھ خود مراعات میں لتھڑے ہوئے ہیں۔
ماہرین معیشت کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ صرف چند ماہ کے لیے ہے اس کے بعد کیا ہوگا؟ کسی کو نہیں معلوم جب کہ پاکستان کو اس سال 25 ارب ڈالر کی ادائی بھی کرنی ہیں۔ یہ رقم کہاں سے آئے گی؟ اسحاق ڈار کا پلان بی ہے ناں۔ آخر پاکستان کے تین ہزار ارب ڈالر کے اثاثے کس مقصد کے لیے ہیں‘ بیچو اور عیش کرو۔