ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیخلاف درخواستوں کی سماعت کرنیوالا 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا

536

 اسلام آ باد: ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواستوں کی سماعت سے قبل ہی 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا۔

 جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس سردار طارق نے بینچ پر اعتراض کردیا۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ہم کوئی راستہ نکالتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی 9 مئی کو گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کے دوران عسکری، سرکاری اور نجی تنصیبات پر حملہ کرنیوالوں کے مقدمات ملٹری کورٹس میں چلانے کیخلاف دائر درخواستوں  کو جمعرات  کو  سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ مقرر کیا گیا تھا۔

 سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے وکلا کو دیکھ کر کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ میں کچھ آبزرویشن دینا چاہتا ہوں، سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں خوشی کا اظہار تو کرنے دیں۔

قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ آپ خوشی کا اظہار باہر کرسکتے ہیں یہ کوئی سیاسی فورم نہیں، حلف کے مطابق میں آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا۔

 انہوں نے کہا کہ قوانین میں ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر بھی ہے، اس قانون کے مطابق بینچ کی تشکیل ایک میٹنگ سے ہونی ہے، کل شام مجھے کاز لسٹ دیکھ کر تعجب ہوا، اس قانون کو بل کی سطح پر ہی روک دیا گیا۔

 جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ میں فوجی زبان میں ہی بات کروں گا، 15 مارچ کو ازخود نوٹس پر نمبر 4 لگا جس بینچ کی صدارت میں کر رہا تھا، مجھے تعجب ہوا کہ ایک سرکلر جاری کر کے آرڈر کو نظر انداز کرنے کا کہا گیا، یہ ہے سپریم کورٹ کی وضاحت؟، بعد میں عدالتی حکم سے بھی میرا فیصلہ واپس لیا جاتا ہے، میرے دوست بتائیں یہ کس قسم کا بینچ تھا؟۔

 سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے مزید کہا کہ میں نے 8 اپریل 2023ء کو ایک نوٹ لکھا، یہ نوٹ بھی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا، چیف جسٹس نے 16 مئی کو مجھ سے دریافت کیا کہ میں چیمبر ورک ہی کروں گا؟، میں بتاتا ہوں آج میں چیمبر ورک پر کیوں گیا۔

 جسٹس قاضی فائز عیسی نے ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں کی سماعت کیلئے مقرر بینچ سے خود کو علیحدہ کرلیا، انہوں نے کہا کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا اس بینچ کو بینچ نہیں مانتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے بعد جسٹس سردار طارق نے بھی بینچ پر اعتراض اٹھادیا۔ دونوں ججز کے اعتراض کے بعد 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا۔ بینچ کی تحلیل کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم کوئی راستہ نکالتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ میں کسی فیصلے کو ماننے سے انکاری نہیں ایک پروسیجر کی بات کر رہا ہوں، ہمارے سامنے اس وقت چار درخواستیں موجود ہیں، سب سے پہلی درخواست عمران نیازی کی تھی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ اس لئے نہیں آیا کہ اٹارنی جنرل نے وقت لیا تھا، ہم نے جو بھی کیا اپنے حلف کے مطابق کیا۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت   ملتوی کردی۔ اب 7 رکنی بینچ اس کیس کو سنے گا۔