شبِ ہجراں

602

خدا کا شکر ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ بات تو آئی کہ ملک و قوم کی مفلسی معاشی و سیاسی بحران کا اصل ذمے دار ایک سیاسی ٹولہ ہے جسے پارلیمنٹ کہا جاتا ہے، تاجروں کے ایک وفد کا کہنا ہے کہ 8بجے رات دکانیں بند کر دیں تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ صبح دس، گیارہ بجے دکانیں کھلتی ہیں اور رات دس گیارہ بجے بند کر دی جاتی ہیں، رات آٹھ بجے دکانیں بند کرائی گئیں تو صبح آٹھ بجے کھولی جائیں گی بہتر یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو آٹھ سال کے لیے بند کر دیا جائے تو معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکتی ہے، ملک و قوم کی خوشحالی کا یہی ایک واحد ذریعہ ہے۔

تاجروں کا یہ کہنا کہ پارلیمنٹ کو آٹھ سال کے لیے بند کر دیا جائے تاجرانہ سوچ ہے کیونکہ پارلیمنٹ بند کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، حکومت چلانے کے لیے اداروں کی ضرورت ہوتی ہے اور ادارے چلانے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے، سرمایہ نہ ہو تو ادارے چلانے والوں کو تنخواہ نہیں دی جاسکتی، کیونکہ ادارے چلانے والے بھی اداروں کو پارلیمنٹ کی طرح چلائیں گے یہ لوگ ملک نہیں چلاتے اپنا گھر چلاتے ہیں، اسی تناظر میں ایک مدت سے کہا جارہا ہے کہ قومی حکومت تشکیل دی جائے جو ایسے افراد پر مشتمل ہو جو اپنے اپنے ادارتی امور کے ماہر اور اپنی خدمات ملک و قوم کے لیے وقف کرنے کے جذبے سے معمور ہوں۔ قومی حکومت پانچ سال کے لیے قائم کر دی جائے تو قوم سیاستدانوں سے اس حد تک بدظن ہو جائے گی کہ ان کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرے گی کیونکہ انہیں اس حقیقت کا ادراک ہو جائے گا کہ اسمبلی اور پالیمنٹ کے ارکان الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے سرمایہ کاری کرتے ہیں اور سرمایہ کاری کا مقصد منافع کا حصول ہوتا ہے، المیہ یہی ہے کہ وطن عزیز میں سیاست ایسی تجارت بن گئی ہے کہ جو ہزاروں گنا منافع بخش ہے کوئی شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ بیوپاری راجا بن جائے تو پرجا بھکاری بن جاتی ہے تاجروں کے مشورے کے مطابق پارلیمنٹ بند کر دی جائے تو ملک چلانے کے لیے بیوپاری ہی آئیں گے جو پرجہ کو بھکاری بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

صدر پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج پوری آب و تاب سے روشن تھا تو ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں اہل و قابل افراد کی کمی نہیں مگر المیہ یہ ہے کہ انہیں موقع فراہم نہیں کیا جاتا، ان کا تجزیہ درست تھا، ان کے قول و فعل میں تضاد تھا کیونکہ وہ بھی اس بدگمانی میں مبتلا تھے کہ ان سے زیادہ قابل اور محب ِ وطن کوئی نہیں حالانکہ وہ اس حقیقت کا ادراک رکھتے تھے کہ سر زمین وطن بنجر نہیں بہت ہی زرخیز ہے اس کی زرخیزی اور شادابی زرخیز لوگوں کی منتظر ہے مگر مقتدر طبقہ ایسے لوگوں کو آگے لانے سے گریزاں رہتا ہے، بدنصیبی یہ بھی ہے کہ سیاستدان ایسے مواقع فراہم کرتے رہے ہیں جو فوج کی سیاست میں مداخلت کا جواز بنتے رہے ہیں اگر ان موقوں کو ملک و قوم کی بہتری کے لیے بروئے کار لایا جاتا تو ملک مستحکم اور قوم خوشحال ہو جاتی۔

یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ جن طبقات سے قوم کو نجات دلانے کے لیے فوج ایوان اقتدار میں آتی ہے اقتدار انہیں طبقات کے حوالے کر دیا جاتا ہے اگر اہل اور با صلاحیت افراد کو موقع دیا جاتا تو فوج رسوا نا ہوتی اور قوم افلاس کی دلدل میں نہیں دھنستی، انجام یہ ہوا کہ وہی لوگ اقتدار پر بار بار قابض ہوتے رہے اور فوج رسوا ہوتی رہی، سابق جنرل قمر جاوید باجوہ ایسے پانچ ہزار افراد کی فہرست مرتب کی تھی جن سے قوم کو نجات دلادی جائے تو ملک مستحکم اور قوم اقوام عالم میں سربلند و سرفراز ہو سکتی ہے۔ اگر قوم کے افلاس کی وجوہ پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ اگر پچاس افراد ہی سے قوم کی جان چھڑا دی جائے تو آئی ایم ایف سے نجات مل سکتی ہے، جو لوگ قوم کا اربوں روپیہ ہضم کیے بیٹھے ہیں ان کا احتساب ہونا چاہیے، مگر وطن عزیز میں ایسا کوئی میکنزم ہی نہیں کہ قرض کے نام پر وصول کی گئی رقم وصول کی جائے، اگر یہ رقم وصول کر لی جائے تو ملک مستحکم اور قوم خوشحال ہو سکتی ہے، مگر المیہ یہی ہے کہ بااثر اور صاحب اختیار لوگوں کی بدعنوانی اور من مانی کا احتساب نہیں کیا جاتا، حالانکہ وطن عزیز کا آئین ہر اس شخص کو قانون کی گرفت میں لانے کا متقاضی ہے جو اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے اگر ان لوگوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے تو بد عنوانی پر قابو پایا جاسکتا ہے اور قوم اقوام عالم کے سامنے سربلند ہو سکتی ہے۔ مگر حکمرانوں کی منصوبہ بندی خاندانی منصوبہ بندی کے سوا کچھ نہیں۔

کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعائوں سے ٹلی ہے