سراج الحق پر حملے کا ماسٹر مائنڈ کون؟

849

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق پر خود کش حملہ اس وقت ہوا جب وہ ملک میں جمہوریت کی بالادستی، آئین و قانون کی حکمرانی اور قومی سیاست میں کشیدگی کم کرنے کے لیے ایک بہت اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ 19 مئی کو کوئٹہ سے بائی روڈ ژوب جلسہ گاہ جاتے ہوئے ان کے قافلے پر خود کش حملہ ہوا جس میں وہ خود تو اللہ کے فضل و کرم سے محفوظ رہے جبکہ 6 کارکن زخمی ہوئے۔ دیکھا جائے تو سراج الحق کوئی عام آدمی نہیں ہیں وہ عالم اسلام کی سب سے بڑی تحریک جماعت اسلامی کے سربراہ، خیبر پختون خوا کے دو مرتبہ سینئر وزیر اور سینیٹر رہ چکے ہیں۔ بلوچستان جو پہلے ہی آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ قومی رہنما پر بزدلانہ خودکش حملے کے واقعے نے حکومت کے امن و امان کے تمام دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ جب صف اول کی قیادت کی سیکورٹی کا یہ حال ہے تو پھر عام آدمی کو کیا تحفظ حاصل ہوگا۔ واقعے کے بعد سراج الحق نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے پہلے ردعمل میں کہا کہ جماعت اسلامی بلا خوف عوام کے حقوق کے لیے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد جاری رکھے گی۔ بلوچستان میں ہر طرف خون کے دھبے ہیں۔ لوگوں کو اپنے حقوق دینا ہوں گے۔ یہاں وسائل کی کوئی بھی کمی نہیں ہے اصل مسئلہ استحصالی نظام اور کرپٹ اشرافیہ کا ہے۔ یاد رہے کہ اسی استحصالی نظام اور کرپٹ اشرافیہ کے خلاف جدوجہد کے نتیجے میں گوادر حق دو تحریک کے قائد اور جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکرٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمان بلوچ حال ہی میں 4ماہ جیل کاٹنے کے بعد رہا ہوئے ہیں۔ کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں۔ جو بھی ان قوتوں کو چیلنج کرتا ہے تو پھر اس کے لیے آزمائشیں کھڑی کردی جاتی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان سونا گیس کوئلہ کی دولت سے مالامال ہے مگر بہتر حکمرانی و دیانتدار قیادت کے فقدان کی وجہ سے آج رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان غربت و افلاس اور محرومیوں کا شکار ہے۔ حکمرانوں نے بلوچستان پیکیج سمیت بے شمار اعلانات کیے مگر وہ سب لولی پاپ ثابت ہوئے۔
سراج الحق پر خود کش حملہ سوچی سمجھی سازش یا سیکورٹی ناکامی اس کا جواب متعلقہ ادارے ہی دے سکتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا یہ مطالبہ سو فی صد جائز ہے کہ بتایا جائے کہ ان پر خودکش حملے کا ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ مگر واقعے کو نصف ماہ گزرچکا صوبائی حکومت و ادارے اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ واقعے کے خلاف ملک گیر احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ جن میں مقررین نے مذکورہ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے حکومتی ناکامی قرار دیا اور ساتھ ہی حکومت پر یہ امر بھی واضح کیا کہ جب تک حملے کے ماسٹر مائنڈ کو بے نقاب کرکے اسے قرار واقعی سزا نہیں دی جاتی اس وقت تک حکومت وقت ہی کو شریک جرم سمجھا جائے گا۔ یہ تو جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنان و ہمدردوں کے صبر و بردباری کا نتیجہ ہے اتنا بڑا واقعہ ہونے کے باوجود پرامن احتجاج کے علاوہ کوئی شیشہ ٹوٹا اور نہ ہی کوئی جلائو گھیرائو ہوا۔ وقت کے آمروں نے جماعت کو ختم کرنے کی کون کون سی سازشیں نہیں کیں اور جماعت اسلامی کے لیے یہ آزمائشیں کوئی نئی بات بھی نہیں ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں لاہور میں منعقدہ ایک اجتماع عام کے موقع پر سید مودودیؒ پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں مگر مولانا نے تمام کارکنان کو پرامن رہنے اور نظم و ضبط اختیار کرنے کی ہدایات دیں۔ اور کارکن بھی اپنے قائد کے اشارے پر چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ ورنہ 9 مئی 2023ء کے واقعات پوری قوم کے سامنے ہیں کہ ایک لیڈر کی گرفتاری پر کیا کچھ نہیں کیا گیا یا کروایا گیا؟ اس لیے سراج الحق پر خود کش حملے کو اتنا معمولی نہ سمجھا جائے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا یہ کردار بھی تعریف کے قابل ہے کہ جنہوں نے حملے کے باوجود ژوب میں منعقدہ جلسے سے نہ صرف خطاب کیا بلکہ اس کے ساتھ ہی زخمی کارکنوں کی عیادت اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔
ہرشہری کی جان و مال کی حفاظت کرنا نہ صرف حکومت کی اولین ذمے داری ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ سیاسی جلسوں اور اس میں شرکت کرنے والے کارکنوں و قائدین کو سیکورٹی دینا بھی اس کے فرائض میں شامل ہوتا ہے۔ اس لیے ژوب بلوچستان میں سراج الحق کے قافلے پر ہونے والا خود کش حملہ قابل مذمت اور حکومت و سیکورٹی اداروں کے لیے بھی لمحہ ٔ فکر ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے حکومت قیام امن عام شہریوں سے لیکر سیاسی کارکنوں و اجتماعات کی حفاظت کے لیے موثر اقدامات کرے۔ نیز ژوب واقعے میں ملوث ماسٹر مائنڈ کو بے نقاب کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے جو حکومت پر فرض بھی ہے اور قرض بھی ہے۔