اسرائیل میں متنازع عدالتی اصلاحات پر حکومت کے خلاف احتجاج بیسویں ہفتے میں داخل

330

تل ابیب :ہزاروں اسرائیلیوں نے تل ابیب کی سڑکوں پر مسلسل20 ویں ہفتے حکومت کی طرف سے متنازع عدالتی اصلاحات کیخلاف احتجاجی جلوس نکالا۔

میڈیارپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھوعدالتی اختیارات اور ججوں کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے ایک ترمیم لانے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ اسرائیل میں عوامی حلقوں میں اس ترمیم کو جمہوری اقدار اورعدلیہ کی آزادی کے خلاف دیکھا جا رہا ہے۔

نتین یاھو کی طرف سے لائے گئے عدالتی اصلاحات سے متعلق ترمیمی بل پردو ماہ قبل پہلی رائے شماری کی گئی تھی۔ پہلی شق سپریم کورٹ کو بنیادی قوانین میں کسی بھی ترمیم کو منسوخ کرنے کے لیے نااہل قرار دیتی ہے۔ہونے والے مظاہرے میں مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر نیتن یاہو کو جمہوریت کا دشمن اور وزیر جرم کے نعرے درج تھے۔

اسرائیلیوں نے جنوری سے ہفتہ وار مظاہرے شروع کیے ہیں تاکہ اصلاحات کے منصوبے اور نیتن یاہو کی حکومت کی مذمت کی جائے۔ مظاہرین کا خیال ہے کہ نیتن یاہو اپنی مبینہ کرپشن کے کیسز سے بچنیکے لیے عدلیہ پر دبا ئوڈالر کر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔

۔27 مارچ کو اسرائیلی وزیر اعظم نے “مذاکرات کا موقع” دینے کے لیے اس منصوبے کو “معطل” کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اصلاحات کے خلاف احتجاج پھربھی جاری ہے۔پولیس نے مظاہرین کی تعداد کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار فراہم نہیں کیے۔گذشتہ ہفتے غزہ کی پٹی میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے نقل و حرکت میں کمی واقع ہوئی۔

اسرائیلی تاریخ کی سب سے زیادہ دائیں بازو کی حکومت سمجھی جانے والی نیتن یاھو کی حکومت کا دعوی ہے کہ عدالتی نظام میں اصلاحات خاص طور پر سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی پارلیمنٹ اور عدلیہ کے اختیارات میں توازن قائم کرنے کے لیے لائی جا رہی ہیں۔دوسری طرف اصلاحات کے ناقدین اسے “آمرانہ روش” قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت شروع کی ہے۔