موسمیاتی تبدیلیوں سے انسانی صحت کو شدیدخطرات لاحق ہیں، پر وفیسر ڈاکٹر روبینہ حکیم

1679
health

کراچی: ضیاءالدین یونیورسٹی کی چیف نیوٹریشنسٹ اور نیوٹریشن ڈپارٹمنٹ کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر روبینہ حکیم نے کہا  ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا ہمارے کھانے، خوراک اور غذائی نظام پر اثرپڑرہاہے، جو انسانی صحت کے لئے شدید خطرات کا باعث ہے۔

تفصیلات کے مطابق ضیاءالدین یونیورسٹی کے ہیومن نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹکس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے “غذائیت اور پائیدار ترقی” کے موضوع پر نیوٹریشن فاؤنڈیشن آف پاکستان کے اشتراک سے دوسری بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد خوراک کے نظام اور غذائی عادات پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی طرف توجہ مبذول کرانا اور پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے اور پائیدار ترقی کی توثیق کرنے میں غذائیت اور غذائی ماہرین کے اہم کردار کو اجاگر کرنا تھا۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ضیاءالدین یونیورسٹی کی چیف نیوٹریشنسٹ اور نیوٹریشن ڈپارٹمنٹ کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر روبینہ حکیم کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ آب و ہوا میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے جس انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا ہمارے کھانے کے نظام ، خوراک اور غذائی پیٹرن پر اثر پڑرہا ہے۔ جیسا کہ ہم ایک ہی سیارے میں شریک ہیں، اپنے سیارے کو بچانے اور ہر طرح سے پائیدار کھپت کو فروغ دینے کے لیے ہمیں عالمی کوششوں کی حمایت کرنے کی ضرورت ہے۔ پائیدار خوراک کا استعمال صحت اور سماجی فوائد کا باعث بھی بنتا ہے اس لیے ہم سب کو پائیدار غذا کو فروغ دینے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

آن لائن سیشن کے دوران، اسکول آف ہیلتھ، یونیورسٹی آف سنشائن کوسٹ، آسٹریلیا میں نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹکس کی سینئر لیکچرر ڈاکٹر سارہ برخارت نے پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے اور فروغ دینے میں نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹکس پروفیشنلز کی اہمیت پر زور دیتے ہوئےان کا کہنا تھاکہ پائیدار ترقی اور نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹکس پیشہ ور افراد کو پائیداری پر مرکوز ہونے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ طلبائ، ماہرین تعلیم اور پریکٹیشنرز کے تاثرات حاصل کرنا ایک ورکنگ ڈیفینیشن تیار کرنے میں کارآمد ثابت ہو سکتا ہے جو نصاب کی ترقی کے لیے نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹکس کے تناظر میں پائیداری کو واضح کرے۔

یونیورسٹی سینس ملائیشیا میں ذیابیطس پروگرام کی چیئرمین اور لیکچرر ڈاکٹر دیویا وانوہ نے کانفرنس میں شرکاءسے اپنی خطاب میں وضاحت کی کہ کھانے کے نظام کے طریقوں کو قدرتی، سماجی اور اقتصادی نظام کی طویل مدتی تخلیق نو میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ زراعت کے ذریعے غذائی عدم تحفظ کے انتظام کے لیے حکمت عملی، جیسے چھوٹے پیمانے پر کسانوں کو سستی اور معیاری معلومات فراہم کرنا، پیداوار میں تنوع لانا، مختلف فصلوں اور مویشیوں کو یکجا کرنا، نوجوانوں کو تربیت فراہم کرنا، صاف پانی تک رسائی کو یقینی بنانا، حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں سرمایہ کاری کرنا، اور زراعت کے لیے موسمیاتی اسمارٹ اور موثر بنانا ہوگا۔

حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ہیلتھ اکانومسٹ اور ہیلتھ پالیسی کے تجزیہ کار ڈاکٹر محمد عاشر ملک نے کہا کہ پاکستان میں غذائیت کے شعبے اور غربت کے اعداد و شمار کے بارے میں میرے تجزیے سے یہ بات واضح ہے کہ غذائیت کی کمی سے نمٹنے کے لیے ہماری کوششیں کامیاب رہی ہیں۔ تاہم، یہ خوش فہمی کا وقت نہیں ہے۔ ہمیں غذائیت کے پروگراموں اور پالیسیوں میں سرمایہ کاری جاری رکھنی چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہم پاکستان کے غذائی حالات کو مزید بہتر بنا سکیں۔ صحت اور بہبود ہمارے شہریوں کا انحصار اس پر ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پبلک ہیلتھ نیوٹریشنسٹ ڈاکٹر نوید بھٹو کا کہنا تھا کہ مائیکرو نیوٹرینٹ کی کمی پاکستان اور عالمی سطح پر وبائی شکل اختیار کر چکی ہے۔ غذائیت کے ’ ’ ٹرپل بوجھ ‘ ‘ میں غذائیت کی کمی، زیادہ غذائیت یا موٹاپا، اور مائیکرو نیوٹرینٹ کی کمی شامل ہے۔ ہر فرد کو بھوک اور غذائی قلت سے پاک رہنے کا حق ہے کیونکہ غذائیت ایک انسانی حق ہے۔ غذائیت میں سرمایہ کاری ترقی کے لیے ایک سرمایہ کاری مو¿ثر ڈرائیور ہے، اور غذائی قلت کو کم کرنے سے ملک کی مجموعی اقتصادی پیداوار میں 11 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔

اختتامی کلمات میں ضیاءالدین یونیورسٹی کی پرو چانسلر ڈاکٹر ندا حسین نے پاکستان کے باہر سے کانفرنس میں شرکت کرنے والے مہمان مقررین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ غذائیت کے موضوع پر کانفرنس کا انعقاد ایک خوش آئند اقدام ہے جس سے یقینا اس شعبے میں شعور اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔