فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی

رمضان المبارک کے اختتام سے دو روز قبل 20 اپریل کو بیت المقدس میں 20سال تک امامت کے فرائض انجام دینے والے مقتدر عالم دین سید اسد بیوض تمیمی کے صاحبزادے فلسطین کی تحریک مزاحمت کے عظیم گروپ تحریک جہاد اسلامی کے مرکزی رہنما سید مامون اسد تمیمی جو فلسطینی پارلیمنٹ اور نیشنل اسمبلی کے رکن بھی ہیں پاکستان تشریف لائے پاکستان میں ان کے میزبان عظیم سیاسی مذہبی رہنما جمعیت علماء اہلحدیث اور اسلامی یکجہتی کونسل کے چیئرمین اور سابق سیاسی اتحاد اے آر ڈی کے سیکرٹری جنرل قاضی عبدالقدیر خاموش تھے۔ انہوں نے اپنے آبائی قصبے ہیل ضلع گجرات میں دفاع فلسطین کانفرنس کا انعقاد کیا اس کے علاوہ فلسطینی رہنما نے گوجرانوالا، گجرات اور ایبٹ آباد میں بھی اپنے اعزاز میں دیے گئے استقبالیوں سے خطاب کیا۔ ہیل میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سید مامون تمیمی نے کہا بیت المقدس و فلسطین کا مسئلہ صرف اہل فلسطین کا نہیں بلکہ عالم اسلام کا مسئلہ ہے کیونکہ قبلہ اوّل اسلام کی شاہ رگ ہے اسے کسی طرح بھی یہودیوں کے پاس نہیں رہنے دیا جاسکتا اس لیے پوری امت مسلمہ اس کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے انہوں نے مزید کہا جو مسلم حکمران اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں وہ صرف اہل فلسطین کے نہیں بلکہ اسلام و مسلمانوں کے غدار ہیں کانفرنس سے اپنے خطاب میں قاضی عبدالقدیر خاموش نے کہا صرف حکمرانوں کو چھوڑ کر پاکستان کے 22کروڑ عوام دل و جان، عزم و عمل سے فلسطین کے مسئلہ میں اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہیں اور وہ ہر سطح پر جانی مالی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں اس موقع پر علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کی مظلومانہ شہادت پر پانچ سال تک احتجاجی تحریک چلانے والے قاضی عبدالقدیر خاموش کے رفقاء کار میں راقم الحروف، سابق رکن رویت ہلال کمیٹی حافظ شفیق انصاری، مکتبہ قدوسیہ کے مدیر ابوبکر قدوسی، ممتاز صحافی عظیم احمد یزدانی،
مولانا عزیزالرحمن حقانی، تحریک صوبہ ہزارہ کے چیئرمین سردار گوہر زمان، مولانا حافظ انس ظہیر، ممتاز عالم دین حافظ انعام اللہ کنجاہی، مولانا الطاف الرحمن شاہ گجراتی، مولانا ابراہیم محمدی، حافظ سیف اللہ خالد، سجادبٹ، رفیق بٹ، رانا عبدالعلیم، صاحبزادہ امیر معاویہ، صاحبزادہ عبدالباسط ڈار، ڈاکٹر علی احمد طاہر اور مولانا عبدالغفار ڈار نے بھی خطاب کیا بعض رہنمائوں نے جو 1987ء تا 1992ء قاضی عبدالقدیر خاموش کی قیادت میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کے قاتلوں کی گرفتاری اور اہلحدیث کاز کی تعمیر و ترقی کے لیے سرگرم عمل رہے انہوں نے ماضی کی یادوں کو تازہ کرنے والے واقعات سنا کر حاضرین کو آبدیدہ کردیا۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے چلائی جانے والی احتجاجی تحریک کا دورانیہ کم و بیش پانچ سال کے عرصہ پر محیط ہے جس کی دوسری مثال پاکستان کی احتجاجی تحریکوں میں نہیں ملتی، لیکن اس تحریک میں عدم کامیابی کی وجہ بعض رہنمائوں کا نواز شریف کے ساتھ سمجھوتا تھا۔
اے داور حشر میرا نامہ اعمال نہ پوچھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
صاحبزادہ ابوبکر قدوسی نے بتایا علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کے ساتھ کارکن جس طرح ٹوٹ کر محبت کرتے تھے اس کی اصل وجہ خود علامہ صاحب کی طرف سے بھی اپنے کارکنان کے ساتھ محبت اور ان کی خبر گیری کا رویہ تھا۔ احتجاجی تحریک میں صف اول کا کردار ادا کرنے والے بزرگ رہنما حافظ شفیق انصاری نے کہا کہ احتجاجی تحریک کے آغاز میں تمام رہنما اس بات پر متفق تھے کہ قاتل نوازشریف ہے پھر چند دنوں بعد راتوں رات بک جانے والے اہلحدیث کاز کے ساتھ مخلص نہیں تھے ہم آج بھی روز اول کی طرح اپنے مؤقف پرقائم ہیں۔ مولانا انعام اللہ کنجاہی نے فلسطینی رہنما کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہم اہل فلسطین کے ساتھ ہیں ان کی ہر سطح پر حمایت جاری رکھیں گے مولانا ابراہیم محمدی نے اس اجتماع کو بروقت اور ضروری قراردیا اور نظم و ضبط کی بھی تعریف کی شرکاء نے قاضی عبدالقدیر خاموش کی جلد اور مکمل صحت یابی کے لیے دعائیں بھی کیں اجتماع کے آخر میں شرکاء کے اعزاز میں پرتکلف ظہرانہ دیا گیا۔
سید مامون اسد تمیمی نے بتایا کہ ان کے دورۂ پاکستان کی ایک وجہ رمضان المبارک میں اسرائیل کے بڑھتے ہوئے مظالم سے اہل پاکستان کو آگاہ کرنا ہے کیونکہ میڈیا چونکہ یہودی لابی کا آلہ کار ہے اس لیے وہ ادھوری رپورٹیں دیتاہے۔ اصل اور سلگتے حقائق کی پردہ پوشی کرتا ہے پورے فلسطین میں جگہ جگہ اسرائیلی فوجیوں نے اپنی چوکیاں قائم کرکے اسے اسرائیلی پولیس اسٹیٹ بنادیا ہے اور وہ عام گزرنے والے بزرگ افراد، خواتین کی توہین و تذلیل کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور پھر بے گناہ نوجوانوں کو گرفتار کرکے پہلے انہیں ظالمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں پھر انہیں جیل میں بند کردیتے ہیں اور اکتوبر 2018ء میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے قومی حکمت عملی برائے انسداد دہشت گردی جسے سینچری ڈیل کا نام دیاگیا تھا دراصل وہ اسرائیل کی بالادستی کی سازش تھی جسے اب پروان چڑھایا جارہا ہے جبکہ اہل فلسطین نے اسے صہیونی حکمت عملی برائے انسداد فلسطین و شام لبنان یمن قرار دیا اور سنچری ڈیل کے نام سے معاہدے کی جو دستاویز ہے وہ دراصل امریکا اور اس کے بغل بچہ اتحادیوں کو مطمئن کرنے کا ایک ٹوٹکا ہے اس میں حریت پسند فلسطینی اور اپنے وطن کی بازیابی کے لیے لڑنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی انہوں نے کہا خاص اس وقت پاکستان آمد کی دوسری وجہ یہ ہے کہ 1992ء میں میرے والد سید اسد بیوض تمیمی جو تحریک آزادی فلسطین کے عظیم رہنما تھے اور قبلہ اول بیت المقدس کے امام و خطیب بھی وہ پاکستان آئے تھے اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو جو حزب اختلاف میں تھیں ان سے ملے اور ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کا اہل فلسطین کے لیے کردار اور فلسطین کے ساتھ ان کی محبت کے واقعات کو یاد دلاتے ہوئے ان سے وعدہ لیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر اسرائیل کو تسلیم نہیں کریںگی اس وقت عرب ممالک انڈرٹیبل اسرائیل کے ساتھ امریکی دبائو پر مذاکرات میں مصروف تھے تو محترمہ نے ان سے کہا تھا کہ اگر عرب ممالک جو اصل حریف ہیں وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو ہمارے لیے تسلیم نہ کرنے کا جواز باقی نہیں رہتا تو میرے والد محترم نے کہا تھا یہ مسئلہ عربوں کا نہیں عالم اسلام کا مسئلہ ہے اور ایک صحافی کی حیثیت سے گزشتہ تیس سال سے میں فلسطین کے حوالے سے بیرونی دنیا کی سیاست پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہوں اکتوبر 2018 میں ایک اسرائیلی طیارے نے پاکستان کا دورہ کیا اور طیارہ کراچی ائرپورٹ پر اترا تھا جس میں موجود لوگوں نے پاکستانی حکام کے ساتھ انڈر ٹیبل مذاکرات بھی کیے تھے اس کی تصدیق اسرائیل صحافی اے وی شارف نے سوشل میڈیا پر کی تھی اس کے بعد ایک سابق پاکستانی سفارت کار کی بیٹی اور امریکن نیشنل انیلہ کی قیادت میں ایک وفد نے تل ابیب کا دورہ کیا تھا میرے آنے کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے صاحبزادے و زیر خارجہ بلاول زرداری کو یہ بات سمجھائوں کہ اسرائیل کے ساتھ پاکستانی حکمرانوں کے مذاکرات و تجارت کی جو باتیں ہورہی ہیں وہ اپنا کردار اداکرتے ہوئے ان مذاکرات اور روابط کو رکوائیں اور اہل فلسطین کے ساتھ اپنے والد اور والدہ کی محبتوں کو پروان چڑھائیں ۔
محض اقتدار کے لیے ان کو قربان نہ کریں ان سے پوچھا گیا کیا وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے اس مشن میں کامیاب ہوجائیں گے انہوں نے کہا میں اچھی امید لیکر آیا ہوں کامیابی اور ناکامی اس کے دونوں پہلو ہیں اور فلسطین کے عوام کزشتہ 72سال سے لڑرہے ہیں اسرائیل اور اس کے سرپرست نہتے فلسطینی جن کے ہتھیار صرف پتھر ہیں جبکہ اسرائیل ایٹم بموں سے لیس ہے ان نہتے فلسطینیوں کو شکست نہیں دے سکتا۔
گر بازی عشق کی بازی ہے تو جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
آخر میں انہوں نے پاکستانی علماء مشائخ، سیاسی و سماجی رہنمائوں سمیت فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکنے والے پاکستانی اہل دل سے دعائوں کی بھی اپیل کی اور کہا میں دورہ پاکستان سے بلند عزائم اور حوصلوں کا خطیر سرمایہ لے کر اہل فلسطین کے پاس واپس جارہا ہوں اور اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے یہ خوشخبری بھی کہ حکمران جو بھی کریں پاکستانی عوام اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہیں اور ان کے شانہ بشانہ کردار اداکریںگے اسرائیلی دہشت گردی کی ہر سطح پر مذمت جاری رکھیں گے۔