مولانا جان محمد عباسی کچھ یادیں، کچھ باتیں

1259

کس کو معلوم تھاکہ یکم جنوری 1925 میں لاڑکانہ ضلع کے ایک چھوٹے سے گائوں بیڑو چانڈیو میں مولانا غلام رسول عباسی کے گھر میں آنکھ کھولنے والا بچہ جان محمد بڑا ہوکر نہ صرف سندھ و ملک کا نامور سیاستدان بلکہ عالم اسلام کی بڑی تحریک میں صف اوّل کے رہنما کا کردار ادا کرے گا۔ مولانا جان محمد عباسی ایک مدبر سیاستدان، شفیق انسان، داعی اور نا بھلانے والی شخصیت تھے۔ بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلی مودودیؒ سندھ کے دو مجاہدین کو ’’جانان محمد‘‘ کے نام سے یاد کیا کرتے تھے۔ جس سے مراد ایک جان محمد بھٹو اور دوسرے جان محمد عباسی تھے۔ 1955میں مولانا مودودی کی شہر آفاق کتاب خطبات سے متاثر ہوکر رکنیت اختیار کرنے والے مولانا جان محمد عباسی نے پہلے تربیتی اجتماع ککری گراونڈ کراچی میں شرکت کی۔ مولانا عباسی مادری زبان سندھی کے علاوہ اردو، عربی اور فارسی زبان پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے۔ وہ دینی علمی خدمات کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی پیچھے نہیں رہے۔ سب سے پہلے بی ڈی الیکشن میں منتخب ہوکر ضلع کونسل کے ممبر بنے بعد ازاں 1985.1970 اور 77 کے قومی انتخابات میں حصہ لیا جس میں ان کو کامیابی تو نہیں مل سکی مگر اچھے ووٹوں کے ساتھ ان کی شخصیت نمایاں ہوکر سامنے آئی۔ خاص طور پر جب وہ لاڑکانہ سے بلا مقابلہ منتخب ہونے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے والے ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے کے لیے میدان میں آئے تو انہیں اغوا کرایا گیا۔ پی این اے کی تحریک کے دوران یہ واقعہ نہ صرف جنگل میں آگ کی طرح پھیلا بلکہ مولانا جان محمد عباسی کو بین الاقوامی شخصیت بنادیا۔
ان کے اساتذہ میں مولانا علی محمد کاکی پوتہ، مولانا عبدالغفور، مولانا عارف جان چشموی کوئٹہ اور مولانا عبداللہ ہجویری شامل ہیں جبکہ ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی۔ دینی علوم کے حصول کے لیے بڑا عرصہ کوئٹہ میں گزارا جہاں تحریک کا تعارف بھی حاصل کیا۔ لاڑکانہ مقام، ضلع، ڈویژن، حلقہ سندھ اور صوبہ کی تنظیمی ذمے داریاں رہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل سندھ میں تین ڈویژن میں نظم تقسیم تھا 1: کراچی امیر چودھری غلام محمد، 2: حیدرآباد ڈویژن مولانا جان محمد بھٹو اور تیسرا خیرپور ڈویژن امیر مولانا جان محمد عباسی۔ کچھ عرصے کے لیے حیدرآباد اور خیرپور ڈویژن کو ملاکر حلقہ سندھ بنایا گیا بعد ازاں کراچی تا کشمور صوبائی نظم قائم ہوا۔ اس وقت سے لیکر 1997 تک صوبہ سندھ جماعت کے امیر اور زندگی کی آخری گھڑی تک مرکزی نائب امیر رہنے والے مولانا جان محمد عباسی نے اپنی محنت جدوجہد اور قربانیوں سے نہ صرف سندھ میں جماعت اسلامی کی دعوت و تنظیم کو مستحکم کیا تو دوسری طرف اپنی سرپرستی میں محمد بن قاسم ادبی سوسائٹی کا قیام سمیت روزنامہ ہفت روزہ اور ماہنامہ پرچوں کا آغاز کرکے نظریاتی و فکری لحاظ سے میدان کو گرم رکھا۔ جس میں ماہنامہ، وینجھار، آئینو، دعوت، روزنامہ الوحید، نشان راہ، ادیوں ودیگر شامل ہیں۔ جس میں وینجھار الحمدللہ! 29 سال سے باقاعدگی سے شایع ہورہا ہے۔ اس میں کارکنان کی فکری ونظریاتی رہنمائی کے ساتھ ملکی وعالمی صورتحال سے آگاہی اور دعوتی وتنظیمی سرگرمیوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
اپنے مرشد ومربی مولانا جان محمد عباسی کو پہلی مرتبہ اس وقت دیکھا و سنا جب وہ سندھ و بلوچستان کے بارڈر پر واقع ضلع جیکب آباد کے چھوٹے قصبے رسالدار میں منعقدہ تربیتی اجتماع میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔ ہم بھی نئے نئے اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے تحریک سے جڑے تھے۔ وہ 1990 کی دہائی تھی، احمد نور مغل ضلعی امیر اور عبدالحفیظ بجارانی قیم ضلع تھے۔ پورے ضلع سے اس تربیتی اجتماع میں احباب شریک تھے۔ جس میں رفتار کار کا جائزہ اور آئندہ کی منصوبہ بندی کی گئی جبکہ آخر میں مولانا محترم نے تبصرہ تجزیہ اور ٹیم کی تحسین کی۔ سرداروں، قبائلی اور قوم پرستی کا گڑھ ہونے کی وجہ سے جماعت کی اس ضلعے پر زیادہ توجہ کے ساتھ تحریک سخت آزمائش سے دوچار بھی رہی۔ مگر درویش صفت انسان امیر ضلع احمد نور مغل اور مولانا واحد بخش خلجی، ڈاکٹر عبدالرزاق کھوسہ، ملک الطاف حسین، حکیم نور الدین، مولانا مہراللہ لاشاری، مولانا غلام فرید مینک، ماسٹر سکندر گولو ودیگر گم نام سپاہیوں کی صورت میں ان کی مخلص ٹیم ہر آزمائش سے سرخرو نکلی۔ اس وقت کشمور وجیکب آباد دو اضلاع میں تقسیم ہونے کے باوجود تنظیمی ودعوتی طور پر بالائی سندھ میں مضبوط اضلاع کے طور پر شمار کیے جاتے ہیں یہ سب ان مخلص قیادت کی محنت اور تحریک سے محبت کا نتیجہ ہے۔ مرد مجاہد مولانا عباسی علمی اور ایک جرأت مند و مدبر سیاستدان تھے۔ انتہائی نفیس دھیمے لہجے میں خطاب اور گفتگو فرماتے تھے بہتر الفاظ کا انتخاب اور تول تول کر بولتے تھے۔ وہ مردم شناس، کس کو کہاں ہونا چاہیے اور لوگوں سے کام لینا جانتے تھے۔ مولانا جان محمد مرحوم میں ایک بہت بڑی خوبی۔ یہ بھی تھی کہ وہ جماعت کے کارکنان اور ارکان کے ذاتی حالات، مسائل اور پریشانیوں سے بھی باخبر رہتے تھے اور ان کے حل کے لیے اپنی طرف سے پوری کوشش کیا کرتے تھے۔ انہیں جماعت سے وابستہ افراد سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام لینے کا زبردست ملکہ حاصل تھا۔ شگفتہ مزاجی بھی ان کی طبیعت کی ایک اہم خوبی تھی۔ موقع کی مناسبت سے وہ کوئی نہ کوئی ایسی شگفتہ بات کہہ دیا کرتے تھے کہ جس سے سنجیدہ محفل بھی زعفران زار ہوجایا کرتی تھی۔ مطلب یہ کہ وہ ہلکی سے مسکراہٹ، الفاظ کی مارسے اپنے رفقاء کی تربیت اور خبرگیری بھی لیتے تھے۔
ان کی تربیت و سرپرستی میں علم و ادب سے لیکر ڈاکٹر انجینئر وکلا سمیت زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد آج تحریک سے جڑکر اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ جمعیت کے نوجوانوں سے خاص محبت کرتے تھے فرماتے تھے کہ یہ تحریک کا مستقبل ہیں۔ مولانا عباسی کی علم و ادب کے ساتھ سندھ کی تاریخ پر بھی گہری نظر تھی۔ ان کے ساتھ بارہا سفر کرنے کا موقع ملا وہ اس دوران آرام کے بجائے جس شہر یا گاؤں سے گزرتے تو اس شہر کی تاریخی حیثیت اور موثر خاندانوں کا ذکر اور پھر تحریک کی پیش رفت امکانات پر روشنی ڈالتے۔ انہیں سندھ کے موثر خاندانوں کے متعلق بڑی معلومات اور ان سے مضبوط تعلق بھی تھا سیاسی اختلافات کے باوجود ان کی خوشی و غمی میں شرکت فرماتے یہاں تک کے طے شدہ تنظیمی دورے اور پروگرامات بھی ملتوی کردیتے۔ ان کو ہمیشہ یہ خواہش و فکر رہی کہ کوئی سندھ جماعت کی تاریخ مرتب کرے۔ اس حوالے سے ممتاز دانشور و مربی پروفیسر کریم بخش نظامانی اور مولانا امیرالدین مہر کی ذمے داری بھی لگائی مگر ان کی زندگی میں یہ کام نہ ہوسکا۔ اس کی خلش ان کے دل میں ہمیشہ رہی جس کا اظہار بھی اکثر وہ کیا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا جان محمد عباسی صبر و تحمل، بردباری اور استقامت کا پیکر تھے اس کی صرف چند مثالیں پیش کرتا چلوں۔ بھٹو نے جب اغوا اور تکالیف دیں تو صبر کا دامن نہیں چھوڑا بلکہ درگزر فرمایا۔ بھٹو مخالف تحریک کے دوران کئی مرتبہ بھٹو نے خود رابطہ کرکے مولانا عباسی کے ذریعے اپنا پیغام سید مودودی و مجلس شوریٰ تک پہنچایا۔
کہتے ہیں کہ جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں پی ٹی وی پر بھٹو کے مظالم قوم کو گنوائے جارہے تھے تو اس دوران مولانا عباسی سے رابطہ کیا گیا کہ آپ بھی آکر بتائیں بھٹو نے کس طرح اغوا اور مظالم ڈھائے مگر مولانا عباسی نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ وہ دور گزر گیا بھٹو اس وقت جیل میں ہے۔ دینی تربیت اور ہمارا ضمیر اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ جب میری ذمے داری شعبہ نشرواشاعت میں لگائی تو مستقل مزاجی اختیار کرنے کی ہدایت کے ساتھ سخت تاکید بھی کی کہ ہماری پریس ریلیز میں کوئی بھی ایسا جملہ نہیں جانا چاہیے جس سے جماعت کی ساکھ متاثر ہو، وہ کہتے کہ جنرل ایوب کے دور میں جماعت کس طرح کٹھن دور و آزمائش سے دوچار کردی گئی مگر اس سب کچھ کے باوجود بانی جماعت سید مودودیؒ اپنے خطابات میں جنرل محمد ایوب صاحب کہہ کر پکارتے۔ جب ان کے بیٹے نجم الدین عباسی جہاد افغانستان کے دوران شہید ہوئے تب بھی وہ صبر و استقامت کی تصویر بنے رہے۔ اسی طرح عمر کے آخری حصے میں بیماری اور ہفتہ میں 2 مرتبہ ڈائیلاسز جیسے صبرآزما و مشکل ترین مرحلے سے گزرنا پڑتا تھا مگر اس کے باوجود صبر وشکر کا دامن تھامے رکھا اسی دن شام کو اگر کوئی گھر گلستان جوہر ملاقات کرنے آتا تو نہ صرف خوش دلی سے ملتے بلکہ خوب مہمان نوازی کیے بغیر نہیں چھوڑتے۔ ان کے قریبی ساتھی مرکزی نائب امیر محترم پروفیسر غفور احمد اپنے تاثرات میں رقم طراز ہیں کہ: میں نے مولانا عباسی صاحب سے آخری ملاقات وفات سے دو دن قبل یعنی 26 اپریل کو کی۔ وہ معمول سے زیادہ علیل تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے کی بات چیت میں اپنی صحت کے بارے میں تو انہوں نے محض ایک دو جملے ہی کہے ہوں گے بقیہ پورا وقت ملکی حالات، سیاسی بحران اور پاکستان پر بیرونی دباؤ کے بارے ہی میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ مزید ان کا کہنا تھا کہ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اللہ نے انہیں وسیع القلب دیا تھا۔ محبت و خلوص کے پیکر تھے رفقاء سے گہرا رشتہ تھا۔ ان کے ساتھ تھوڑی دیر نشست میں اتنا کچھ حاصل ہوجاتا جو شاید طویل مطالعوں سے بھی حاصل نہ ہوتا۔ ملکی و غیر ملکی حالات پر ان کی رائے و تجزیہ حقیقت پسندی پر مبنی ہوتا۔ صوبائی و مرکزی مجلس شوریٰ اور مجلس عاملہ میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی وہ عموماً آخر میں اظہار خیال کرتے جو ان کے تجربہ اور عمیق کا نچوڑ ہوتا۔ پروفیسر عبدالغفور احمد کے تاثرات سے مولانا عباسی کی شخصیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس پائے کی شخصیت تھے۔
مولانا عباسی اپنے کردار و گفتار اور ملنساری کی وجہ سے ایک ناقابل فراموش شخصیت تھے۔ اندرون سندھ ملک و بیرون ملک سے کوئی جماعتی احباب کراچی آئیں تو مولانا عباسی سے ملاقات نہ کریں یہ ہو نہیں سکتا اور یہ سلسلہ ان کی بیماری میں بھی جاری رہا۔ بعض احباب تو بیرون ملک سے فون کرکے ان کی طبیعت کے بارے میں پوچھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کو کئی سال گزر جانے کے باوجود آج بھی وہ مجھ سمیت کارکنوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ 78 سال کی عمر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے خالق حقیقی کے پاس چلے گئے کہ ہرنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ 28 اپریل 2003 کو مجھے اسلام آباد میں ان کی وفات کی اطلاع ملی جب احقر اس وقت کے امیر صوبہ و رکن قومی اسمبلی محترم اسداللہ بھٹو کے ہمراہ اجلاس میں شریک تھا۔ مولانا عباسی تحریک اسلامی کا ایک روشن ستارہ تھے جو بیماری کے دوران بھی تحریک اور رفقاء کے لیے فکرمند اور اسلام آباد پیغام بھیجتے کہ: دارالحکومت اسلام آباد میں کام کے لیے آنے والے عام افراد اور رفقاء کی دل جوئی و حوصلہ افزائی کریں باقی آگے ان کی قسمت! آج 28 اپریل ان کا یوم وفات ہے تمام رفقاء سے ان کی کامل مغفرت اور درجات بلندی کے لیے دعا کی درخواست ہے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی