غیر اخلاقی جرائم اور ہمارے زوال کا راز

1350

ہمارا معاشرہ سیاسی دیوالیہ پن کے ساتھ بڑے سماجی اور اخلاقی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے، اور یہ انحطاط تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ اس ضمن میں خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی خبریں اکثر اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں اور ہم اپنے اردگرد بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جو خبریں پڑوسی ملک بھارت سے آتی تھیں، جہاں خواتین سے چھیڑ چھاڑ عام بات ہے، اب ہم بھی اس گندگی میں گرتے چلے جارہے ہیں اور اس کام میں چھوٹی عمر کے بچے بھی ملوث ہیں۔ تازہ ترین خبر جو اخبارات کی زینت بنی وہ بظاہر تو ایک عام سی خبر ہے لیکن ہمارے پورے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے۔ خبر کے مطابق کراچی کے علاقے کورنگی میں راہ چلتی خاتون سے غیر اخلاقی حرکت کرنے والے موٹر سائیکل سوار ملزم کو گرفتار کرلیا گیا۔ مقامی ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ کورنگی نمبر ڈھائی میں گلی سے گزرتی خاتون کے ساتھ موٹر سائیکل سوار ملزم نے غیر اخلاقی حرکت کی اور خاتون کو ہراساں کیا۔ واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس کے بعد پولیس نے ملزم کو 24 گھنٹوں کے اندر گرفتار کرلیا، اور اس کے بعد روایتی طور پر مقدمہ درج کرکے اْسے تفتیشی حکام کے سپرد کردیا گیا۔ اس واقعے نے شہر میں اخلاقیات اور عدم تحفظ کی ابتر حالت کو مزید نمایاں کیا ہے۔ واقعہ جہاں پیش آیا ہے وہ علاقہ پہلے ہی جرائم کی بلند شرح کے لیے بدنام ہے، اور غیر اخلاقی اور مجرمانہ سرگرمیوں کا شہر کے کئی علاقوں کی طرح گڑھ بن چکا ہے۔ شہر میں گزشتہ چند سال سے رپورٹ ہونے والے جرائم کی تعداد میں اضافہ تسلسل سے ہورہا ہے، اور یہ الارمنگ صورتِ حال کے ساتھ تشویش ناک رجحان ہے۔ پولیس نے اس معاملے میں فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار تو کرلیا ہے، لیکن یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ مسئلے کے حل کا صرف ایک پہلو ہے۔ شاید ہزار میں سے ایک کیس اپنے منطقی انجام تک پہنچتا ہوگا۔ اصل بات یہ ہے کہ اس مسئلے کی جڑ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ تو چھیڑ چھاڑ اور بداخلاقی کا ایک واقعہ ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دوغلاپن، ملاوٹ، حرص، رشوت خوری، ظلم و زیادتی، قتل و غارت، فساد، جھگڑا، گالی گلوچ، عیب جوئی، حسد، غرور و تکبّر، مفاد پرستی، دھوکا دہی، زنا کاری، سود وحرام خوری، ذخیرہ اندوزی، چوری، شراب نوشی، منشیات کا استعمال، ناجائز منافع خوری اور جْوا کھیلنے کے ساتھ کون سی برائی ہے جو ہمارے اندر سرایت نہیں کرگئی ہے!
آج معاشرے میں سماجی و اخلاقی بحران تشویش سے زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ ہماری اقدار اور اخلاقیات کو ختم کیا جارہا ہے اور ان کی جگہ بے حسی اور خودغرضی کی ثقافت نے لے لی ہے۔ اس بحران کی وجوہات پیچیدہ بھی ہیں اور بہت سی ہیں۔ یہ متعدد عوامل کی پیداوار ہے، جس میں معاشی اور سماجی عدم مساوات، روایتی خاندانی ڈھانچے کا ٹوٹنا اور حکومت اور اداروں پر اعتماد کا ختم ہوجانا شامل ہے۔ اس میں جدید دنیا اور ٹیکنالوجی کا حصہ بھی ہے۔ سوشل میڈیا نے بھی اس زوال کو بڑھایا ہے اور اس کے نتائج یقینا بہت دور رس ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم جانوروں سے ممتاز اس لیے ہیں کہ انسان کو اخلاقیات ہی اشرف المخلوقات کے مقام پر فائز کرتی ہیں، یہ معاشرہ اسلام کے بتائے ہوئے اخلاقی اصولوں کو اپناکر ہی بچ سکتا ہے اور ہم اپنی نئی نسل کو بے راہ روی سے بچا سکتے ہیں۔ ایک صحابی نے سیدہ عائشہؓ سے سوال کیا کہ اخلاق کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کے رسولؐ اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔ ہمارے پاس تو اللہ کے آخری رسولؐ کی عملی زندگی مثالی اخلاقی ماڈل کی صورت میں موجود ہے، لیکن ہم پھر بھی محروم قوم بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں سب سے مظلوم طبقہ بچوں کا ہے، ہم جتنا وقت اپنے بچوں کو مادی وسائل کے حصول کی آسان ترکیبیں سکھاتے ہیں اْس سے کچھ کم وقت میں اخلاقی تعلیمات سکھانے اور برتنے پر توجہ دیتے تو بحیثیت مسلمان آج پوری دنیا میں ہمارا حال مختلف ہوتا۔ ابن خلدون نے ’’مقدمہ ابن خلدون‘‘ میں لکھا تھا کہ دنیا میں ترقی کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی حامل ہوتی ہے۔ ہمارے زوال کا راز ہی یہ ہے کہ ہم اخلاقی پستی میں بہت آگے جاچکے ہیں۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں ریاست ان جرائم کو روکنے کی کوشش کرے، وہاں ہمیں دنیا میں آنے کے مقصد کے سبق کو بار بار پڑھنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی جدوجہد، بے چینی، بے قراری اور تڑپ کا محور مادی آسائشوں کے بجائے خدا کی خوشنودی کو بنانا ہوگا۔ مذکورہ واقعے کے ضمن میں والدین کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اقدار اور اخلاقیات پر توجہ دیں، انہیں وقت دیں اور اچھے برے، حلال و حرام کا فرق خود بھی سمجھیں اور بچوں کو بھی سمجھائیں۔ محلے کے بزرگ اور بڑے بھی اس میں اپنا کردار ادا کریں، کیونکہ سماجی و اخلاقی بحران ایک اہم مسئلہ ہے اور اس کا کوئی آسان حل نہیں ہے۔ لیکن اپنا سماجی کردار بڑھانے سے اس بلا کو روکا جاسکتا ہے، ورنہ کورنگی جیسے واقعات ہوتے رہیں گے اور بے حیائی، اخلاقی اور سماجی برائیاں پنپتی رہیں گی اور لاعلاج ہوکر ناسور بن جائیں گی۔
علامہ اقبال نے ہماری حالت ِ زار کی اصل وجہ برسوں پہلے بتادی تھی کہ:
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ ایک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مْسلّم سے کوئی چارہ
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
ایک جگہ اور کہا کہ:
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو! یہ اندازِ مسلمانی ہے
حیدری فقر ہے، نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اور ایک جگہ زوال سے نکلنے کارستہ بھی بتادیا کہ:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی