ہمارے فہم کا امتحان

487

ایک اہم بڑی پیش رفت ہوئی ہے، خاموش سفارت کاری ہوئی اور ایران، سعودی عرب معاہدہ ہوا جس سے دونوں ممالک نے باہمی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا، یہ چین کی کاوش تھی جو ان دونوں ممالک کے ساتھ اپنے سیاسی اور معاشی تعلقات مستحکم کرنے کے حوالے سے اقدامات کر رہا تھا یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان ثالث کے کردار کے لیے چین ایک فطری انتخاب تھا لیکن سوال ہے کہ کیا خطے کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے دونوں ممالک کا یہ تعلق زیادہ عرصے تک برقرار رہ پائے گا؟ ماضی تو اچھا نہیں گزرا، اس طرح کی بہت سی کوششیں ناکام ہوئی تھیں تو کیا اس بار یہ کامیاب ہوپائے گی؟ کیا امریکا مشرقِ وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو روکنے کے لیے اقدامات کرے گا؟ اور اس سب کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟ یہ اہم سوالات ہیں جن کے جوابات خطے اور پوری دنیا پر اپنے گہرے اثرات مرتب کریں گے۔
سعودی عرب بہت تیزی سے تبدیل ہورہا ہے ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں ملک میں واقعی ’تبدیلی‘ آرہی ہے۔ سعودی عرب تیل کی برآمدات پر اپنے انحصار کو کم کرکے اپنی معیشت کو متنوع بنانے پر توجہ دے رہا ہے۔ سعودی عرب کے وژن 2030ء ملک کو ایک ایسا مرکز بنانے کا اعادہ کرتا ہے جو ’’3 برِاعظموں افریقا، ایشیا اور یورپ کو جوڑے گا‘‘۔ سماجی طور پر سعودی عرب کا معاشرہ اس قدامت پسندی کو آہستہ آہستہ ختم کررہا ہے جوکہ آلِ سعود سے منسوب تھی۔ وژن 2030ء کے مقاصد بہت اہم ہیں انہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے سعودی عرب امریکا کے ساتھ اپنے سیکورٹی تعلقات پر نظرثانی کرکے اور دیگر عالمی طاقتوں بالخصوص چین تک رسائی کے ذریعے اپنی خارجہ پالیسی کو نئی شکل دے رہا ہے ، سعودی عرب اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ پُرامن تعلقات کے قیام کی کوشش کررہا ہے ترکیہ، قطر حتیٰ کہ اسرائیل کے ساتھ بھی ممکنہ طور پر سعودی عرب اپنے تعلقات معمول پر لانا چاہتا ہے جبکہ ایران کے ساتھ تعلقات کی حالیہ بحالی اس بات کا عندیہ ہے کہ ان کی یہ اندرونی اور بیرونی پالیسیاں اسی ایجنڈے سے مطابقت رکھتی ہیں جس پر عمل درآمد کے لیے وہ کوشاں ہیں۔
ایران بھی سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانا چاہتا تھا ایران امریکی پابندیوں کی وجہ سے سنگین معاشی بحران میں مبتلا ہے اور وہاں کے معاشرے میں لوگوں کے سماجی پابندیوں سے تنگ آنے کے آثار بھی نمایاں ہورہے ہیں جیسا کہ حالیہ ملک گیر مظاہرے ہوئے، لبنان، شام، عراق اور یمن میں پراکسی جنگوں کی فنڈنگ بھی معاشی بحران کا شکار ایران کے لیے مہنگا ثابت ہورہا ہے۔ ایسے میں قابلِ فہم طور پر ایران اپنے ہمسایہ عرب ممالک کے ساتھ تناؤ کو کم کرنا چاہتا ہے اور خطے میں اسے تنہا اور الگ کرنے کی امریکا کی کوششوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے چین کا یہ سفارتی اقدام جغرافیائی سیاست اور جغرافیائی معیشت میں اہمیت کا حامل ہے۔ بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ چین کی توانائی کی ضروریات کا ایک بڑا حصہ سعودی تیل سے پورا ہوتا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے گزشتہ سال ریاض میں ماحول دوست توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کلاؤڈ خدمات اور دیگر شعبہ جات میں سرمایہ کاری کے 34 معاہدے طے کیے جن کا تخمینہ تقریباً 30 ارب ڈالر ہے سعودی عرب نے خطے کے 30 سربراہانِ مملکت اور کاروباری حضرات کے ساتھ صدر شی جن پنگ کے اجلاس کی میزبانی بھی کی۔ چین ایران کو کثیرالجہتی تعلقات میں بھی شامل کررہا ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے حال ہی میں بیجنگ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے 2021ء میں طے پانے والے 25 سالہ جامع اسٹرٹیجک پارٹنرشپ معاہدے کے تحت 20 اہم معاہدوں پر دستخط کیے جس کے بعد چینی سرمایہ کار ایران میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے۔ چین نے ایران پر امریکی پابندیاں ہٹانے، جوہری معاہدے کو بحال کرنے اور شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس (BRICS) میں ایران کو شامل کرنے کی حمایت کی ہے۔
امریکا چین مقابلہ اپنے عروج پر ہے، اس نے نئی پیش رفت کا انتہائی محتاط انداز میں خیرمقدم کیا ہے لیکن وہ اس اقدام کو چین کی جانب سے دنیا بھر میں اپنے اثر رسوخ کو بڑھانے کی کوشش ہے اس تناظر میں یہ نئی پیش رفت مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے امریکی پالیسی کے لیے ایک دھچکے کی مانند ہے۔ کئی دہائیوں تک امریکا سعودی عرب کا کلیدی دفاعی سپلائر اور سیکورٹی کا ضامن تھا۔ حال ہی میں ان دونوں کے تعلقات میں دراڑیں اس وقت نمودار ہوئیں جب واشنگٹن سعودی عرب کو تیل کی سپلائی بڑھانے اور تیل کی قیمتوں پر آمادہ کرنے میں ناکام رہا جس کے حوالے سے امریکا کا خیال تھا کہ یہ یوکرین کے خلاف جنگ میں روس کا ساتھ دے گا۔ سعودی صحافی جمال خاشق جی کے قتل کے بعد امریکا کی جانب سے سعودی عرب کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تنقید کی گئی۔ صدر جو بائیڈن نے اس سعودی عرب کی ریاست کو دنیا سے کاٹ دینے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ ایران کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور چین کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے کے لیے سعودی عرب کے عملی اقدامات واشنگٹن کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ سعودی عرب کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔ امریکا جو اپنی انڈو پسیفک حکمت عملی کے تحت چین کا مقابلہ کرنے کے لیے پُرعزم ہے، وہ یقینی طور پر
آنے والے مہینوں میں جوابی اقدامات کرے گا حالانکہ سفارت کاری کے بجائے عسکری طاقت پر حد سے زیادہ انحصار کرنے سے امریکا کے مواقع کم ہورہے ہیں۔ بھارت جسے امریکا نے جنوبی ایشیا میں اپنے اتحادی کے طور پر چنا تھا وہ بھی روس اور چین کے ساتھ اپنے
تعلقات میں ’اسٹرٹیجک خودمختاری‘ کو ترجیح دے رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے امریکا سے دُور ہونے کے بعد، پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ امریکا اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے نئے مواقع کی تلاش میں ہے۔ اسرائیل بھی ایران اور سعودی عرب کے حوالے سے اس نئی پیش رفت سے ناخوش ہے لیکن اس نے اپنے آپشنز کھلے رکھے ہیں۔ لیکن وہ ایران کو تنہا کرنے پر اب بھی بضد ہے، اسرائیل عرب دنیا کے ساتھ ہم آہنگی چاہتا ہے جبکہ چین کے ساتھ اپنے اقتصادی روابط میں بھی مسلسل اضافہ کیا ہے۔ تو یہ پیش رفت پاکستان کے لیے کیا اہمیت رکھتی ہے؟ ہماری حکومت نے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس سے مسلم دنیا میں ہماری جامع کوششوں کو بھی تقویت ملے گی۔ ہمیں اپنے اقتصادی بحران سے نکلنا ہوگا اور ان ممالک سے صنعتی زونز اور زرعی شعبے میں ممکنہ سرمایہ کاری کو جذب کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ سعودی عرب پاکستان میں اپنی آئل ریفائنری لگانے پر آمادہ ہے جس کے لیے زمینی کام کو تیز کرنا ہوگا۔ ایران کے ساتھ ہمیں سرحدی مارکیٹوں کو وسعت دینی چاہیے جبکہ بارٹر تجارت کا بہترین استعمال بھی کرنا چاہیے۔ گوادر بندرگاہ کو کامرس اور تجارت کا علاقائی مرکز بنانے اور اسے مکمل طور پر فعال بنانے کے لیے فوری اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ چین، سعودی عرب اور دیگر ممالک سے صنعتی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے اسپیشل اکنامک زونز کو بھی متحرک کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ بھی سیکھنا چاہیے کہ عملی سفارت کاری، خاموشی اور احتیاط سے کیسے کی جاتی ہے۔