کہاں ہو کہاں ابن قاسم کہاں ہو

692

10 رمضان المبارک کو عرب کی ایک بیٹی کی آواز پر حجاج بن یوسف نے اپنے سترہ سالہ نوجوان بھتیجے محمد بن قاسم کو سندھ کے ظالم وجابر حاکم راجا داہر کے ظلم سے نجات کے لیے بھیجا۔ محمد بن قاسم نے ظلم کا شکار سندھ کے باسیوں کو ناصرف یہ کہ راجا داہر کے تسلط سے نجات اور اس کی قید میں عرب کی مظلوم بیٹی کو نجات دلوائی بلکہ حسن سلوک اور اسلام کی آفاقی دعوت کے ذریعے دیبل سندھ کے ساحلوں سے لیکر ملتان تک اسلامی ریاست قائم کر کے اسلام کی شمع کو روشن کیا۔ یہاں کے لوگ محمد بن قاسم کے حسن سلوک اور اس کی دعوت سے بہت متاثر ہوئے اور جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے اور اس وجہ سے سندھ کو باب الاسلام کا درجہ بھی دیا گیا۔ محمد بن قاسم نے دیبل سے ملتان تک عظیم الشان فتوحات حاصل کی اور ذات پات نسل مذہب کو بالائے طاق رکھتے اسلامی تعلیمات کو فروغ دیا اور سماجی نظام کو بدل کر رکھ دیا۔ سندھ کے لوگوں نے بھی محمد بن قاسم سے والہانہ عقیدت اور محبت کا اظہار کیا اور عقیدت میں اس کے جانے کے بعد محمد بن قاسم کے مجسمے تک بنائے گئے۔ شعور اور خوبصورت انقلاب نے سندھ کے باسیوں پر گہرے نقش قائم کیے وہ دل وجان سے اسلام کے آفاقی پیغام سے وابستہ ہوئے اور بھائی چارگی کو فروغ دیا گیا، اسلامی تہذیب وتمدن کو فروغ دے کر ہندوانہ کلچر کا خاتمہ کیا گیا اور رواداری کو فروغ دیا گیا۔ محمد بن قاسم کا دور سندھ کا ایک سنہری دور ہے جب یہاں دین اسلام کو فروغ حاصل ہوا اور محمد بن قاسم کی حکمرانی میں سندھ میں غیر مسلموں کو بھی بھرپور آزادی حاصل تھی کہ وہ آزادانہ طور پر اپنے رسم ورواج اور عبادات کرسکے اور ان کی عبادت گاہوں کو بھی تحفظ حاصل تھا۔ سندھ کے باسی جو راجا داہر کے ظلم اور تسلط سے پریشان تھے انہوں نے حسن سلوک اور اسلام کے بے مثال اصولوں سے متاثر ہو کر اپنے دلوں میں اسلام کی شمع کو روشن کیا۔ محمد بن قاسم نے وقت کے ظالم اور جابر راجا داہر کو للکارا اور ایک نہتی لڑکی کی آواز پر داہر کی ظالم حکومت کا خاتمہ کیا بلکہ سندھ کے باسیوں پر احسان عظیم کیا کہ ان کے دلوں کو اسلام کے پیغام سے منور کیا اور سندھ کو باب الاسلام کا درجہ دلوایا۔
کئی صدیاںگزرجانے کے باوجود آج بھی محمد بن قاسم سندھ کے باسیوں کے دلوں میں زندہ وجاوید ہیں اور اس سے چھوڑے ہوئے انمٹ نقوش آج بھی زبان زد عام ہیں۔ محمد بن قاسم کسی فرد کا نام نہیں بلکہ ایک نظریہ کا نام ہے۔ دنیا میں جب اور جہاں بھی ظلم اور جبر کا دور دورہ ہوا اہل ایمان اس ظلم وجبر کے خاتمے کے لیے وہاں پہنچے انہوں نے حق کا پرچم بلند کیا اور مظلوموں کی داد رسی کرتے ہوئے انہیں ظلم سے نجات دلوائی۔ آج بھی اسلام کی ایک بیٹی عافیہ صدیقی امریکا کی قید میں ہے اور وہ بھی کسی محمد بن قاسم کی منتظر ہے جو اسے امریکی قید سے نجات دلوا سکے۔ قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی جس کو چند ٹکوں کی خاطر پاکستان کے بے حمیت حکمراں پرویز مشرف نے امریکا کے ہاتھوں فروخت کیا۔ امریکی قید میں عافیہ صدیقی پر خواتین کے حقوق کے علمبرداروں نے جو ظلم اور ستم کیا اس نے انسانیت کو بھی شرمسار کردیا ہے۔ ایک نہتی خاتون کو جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر اور اس کے تقدس کو پامال کیا گیا۔ انسانی حقوق کے چمپئن اور موم بتی آنٹیاں جو خواتین کے مسئلے پر زمین آسمان ایک کر دیتی ہیں انہیں بھی سانپ سونگھا ہوا ہے اور ان کی بولتی بند ہے۔ اقتدار سے پہلے ان سب حکمرانوں نے عافیہ صدیقی کی والدہ اور بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے ملاقات کر کے انہیں یقین دہانی کروائی کہ وہ اقتدار میں آکر عافیہ صدیقی کو امریکا کی قید سے نجات دلوائیںگے۔ امریکی عدالت نے بھی ظلم کی انتہا کرتے ہوئے قوم کی مظلوم بیٹی کو 80سال قید کی سزا بھی سنائی۔ دنیا کے 58سے زائد اسلامی ممالک ہونے کے باوجود آج اسلام کی بیٹی کسی محمد بن قاسم کی منتظر ہے لیکن امت مسلمہ کے حکمراں بے حسی اور اپنی عیاشیوں اور خر مستیوں میں مگن ہیں اور دوسری جانب کشمیر کی لاکھوں خواتین آج بھارت کے ظلم اور تسلط کے خلاف نمبرآزما ہیں۔ غاصب بھارتی فوجیوں نے ہزاروں عزت مآب کشمیری خواتین کی عصمت دری کی۔ سیکڑوں کو قتل کیا گیا۔ مائوں کے سامنے ان کے جگرگوشوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔
بھارت نے 15اگست 2019 کو پورے مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاون قائم کر کے پورے مقبوضہ کشمیر کو جیل میں بدل دیا ہے اور آج جب سال 2023 میں بھی رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ سایہ فگن ہے اور اس کی رحمتوں برکتوں کا نزول جاری ہے۔ مظلوم اہل کشمیر آج بھی اسی ظلم اور جبر کا شکار ہیں۔ اوآئی سی سمیت سب خاموش ہیں۔ پاکستان جو اہل کشمیر کا حقیقی معنوں میں ان کا پشتی بان اور ان کی منزل مراد تھا۔ اس سے بھی انہیں شدید مایوسی ہوئی ہے اور وہ بجا کہتے ہیں کہ عمران خان جب اقتدار میں تھے تو ان کی حکومت نے تو ان کی پیٹھ پر خنجر گھونپا ہے۔ دو مرتبہ عمران خان نے او آئی سی کی خارجہ کانفرنس پاکستان میں منعقد کی لیکن ان کانفرنسوں میں قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کا ذکر تک نہیں کیا اور پھر یہ کہتے ہیں کہ ہماری حکومت امریکا نے ختم کی ہے۔ عمران خان تمہاری حکومت امریکا نے نہیں بلکہ قوم کی بیٹی کی بددعا سے ختم ہوئی ہے۔ عمران خان کے بعد نئے آنے والے وزیر اعظم بھی لولی باپ کے ذریعے کام لے رہے ہیں۔
عافیہ صدیقی نے ان سے ملاقات بھی کی لیکن تسلیوں اور تشفی کے سوا اب تک کچھ بھی نہیں ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی ذمے داری ہے کہ وہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور تاریخ میں خود کو امر کرلیں ورنہ عمران خان کا انجام ان کے سامنے ہے۔ بے شک جب معاشرے میں ظلم حد سے گزر جاتا ہے تو اللہ پاک ان قوموں پر اپنا عذاب مسلط کردیتا ہے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ تمام تر ترقی اور جدیدیت کے باوجودر ایک نہ نظر آنے والے کیڑے کے ہاتھوں وہ ساری شان وشوکت، ترقی اور طاقت کا گھمنڈ مٹی میں مل چکا ہے اور دنیا کو احساس ہوگیا ہے کہ لاک ڈائون کس کو کہتے ہیں۔ فلسطین، شام، کشمیر، افغانستان، عراق اور چین میں مسلمانوں پر بدترین ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔ امت مسلمہ آج پھر محمد بن قاسم کی منتظر ہیں۔ امت مسلمہ کی عزت مآب مائیں بہنیں محمدبن قاسم کو پکا ر رہی ہیں۔ انہیں امید ہے ان کا خدا ضرور ان کی مدد کو کسی محمد بن قاسم کو بھیجے گا اور ابن قاسم ان کی مدد کو ضرور آئے گا اور انہیں ظلم اور جبر کے تسلط سے انہیں نجات دلوائے گا۔ محمد بن قاسم نے وقت کے داہروں کو لکارا اور اس کے ظلم کا خاتمہ کیا۔ آج کے راجا داہر غرور تکبر اور گھمنڈ میں زمینی خدا بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے دنیا کی معیشت پر قبضہ جمایا اور پوری دنیا کو اپنا یرغمال بنایا ہوا ہے۔ دنیا میں ننگی تہذیب کو پروان چڑھا کر نسل نو کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ شیطانی نظام پوری آب وتاب کے ساتھ اپنا تسلط جمارہا ہے۔ بھوک غربت افلاس نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ کوئی ابن قاسم اٹھے اور سرمایہ پرستی کے اس سفینے کو غرق کرے۔ وقت کے راجا داہر آج فرعون شداد کی تاریخ دھرا رہے ہیں اور ان کے ظلم کے سامنے انسانیت شرمسار ہے۔ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے اور مارنے والوں کے چہرے آج پوری طرح بے نقاب ہوچکے ہیں۔ اسلام کے عادلانہ نظام کو محمد بن قاسم نے سندھ میں عملی طور پر نافذکیا تو ظلم اور جبر کا خاتمہ ہوا۔ انسانیت کو معراج حاصل ہوئی اور عدل وانصاف کا بول بالا ہوا۔ اسلام کی کرنوں نے پورے معاشرے کو منور کیا اور ایک ایسی تہذیب سے یہاں کے لوگ آشکار ہوئے جہاں عدل انصاف بھائی چارگی اور امن تھا۔ دنیا کو آج جس امن کی تلاش ہے اوہ امن ایٹم بم اور دیگر ایٹمی صلاحیتوں میں نہیں ہے۔ محمد بن قاسم نے امن کے پیغام کے ذریعے سندھ میں اسلام کا پرچم بلند کیا آج بھی سندھ سے چلنے والی ہوائیں محمد بن قاسم کا پتا بتاتی ہیں۔ ان ہواوں میں پیار محبت ایمان عقیدت واحترام کی مہک شامل ہے۔ دنیا آج امن کی تلاش میں ہے۔ محمد قاسم نے اپنے کردار اور حسن سلوک سے سندھ کے لوگوں کے دلوں کو فتح کیا۔ آج بھی دنیا محمد بن قاسم کی منتظر ہے جو انہیں وقت کے راجا داہروں سے نجات دلوائے۔