لگتا تو ایسا ہی ہے

715

پروین بابی 70 اور 80 کی دہائی کی سب سے مشہور اور گلیمرس ہیروئن تھی لیکن ایک دن وہ اچانک فلم شوٹنگ کے دوران سیٹ چھوڑ کر چلی گئی۔ اس کا کہنا تھا کہ امیتابھ بچن فانوس گرا کر اس کو مارنا چاہتا ہے۔ اس کے بعد پروین بابی کو ہر طرف کچھ لوگ نظر آنے لگتے ہیں جو اسے مارنا چاہتے ہیں۔ پروین بابی نے ایک ریکارڈر اپنے ساتھ رکھنا شروع کر دیا تھا تاکہ وہ ان افراد کی دھمکیاں ریکارڈ کر سکے جو اسے جان سے ماردینے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ مہیش بھٹ کے ساتھ اس کا افیئر تھا وہ بتاتے ہیں کہ وہ اور پروین بابی ایک ڈائریکٹر کے ساتھ گاڑی میں جا رہے تھے کہ اچانک پروین نے چلانا شروع کر دیا کہ گاڑی میں بم ہے اور وہ اس کی ٹک ٹک صاف سن سکتی ہے۔ اس کے چند لمحوں بعد پروین بابی گاڑی کا دروازہ کھول کر کود گئی۔ وہ اکثرتقریبات میں بھی ہنگامہ کرتی۔ پھر یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ سب پروین سے دور ہو گئے اور وہ موت کے خوف سے ایک کمرے تک محدود ہو گئی۔ اپنے مرنے تک پروین نے ہر کال ریکارڈ کی تاکہ اس کو موت کی دھمکیاں دینے والوں کی آوازیں ریکارڈ ہو سکیں۔ 2005 میں وہ اپنے اپارٹمنٹ میں مردہ پائی گئی۔ اس کو مرے ہوئے ہفتہ گزر چکا تھا لاش گلنے سے سوسائٹی نے دروازہ توڑ کر ان کی باڈی کو نکالا۔ پروین بابی ’’پیرانائیڈ شیزوفرینیا‘‘ کا شکار تھی لیکن مرتے دم تک اسے تسلیم نہیں کیا۔ پروین بابی نے بل کلنٹن سے فرنچ گورنمنٹ تک ہر کسی پر قتل کی سازش کا الزام لگایا تھا۔
لگتا ہے کہ عمران خان بھی ’’پیرانائیڈ شیزوفرینیا‘‘ کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہیں روز لگتا ہے کہ آج انہیں کسی اور طریقے سے مار دیا جائے گا وہ آئی جی پنجاب سے پولیس کانسٹیبل، امریکا سے افغانستان اور شہباز شریف سے ڈی جی آئی ایس آئی تک پر اپنے قتل کیے جانے کا الزام لگا چکے ہیں۔ عدالت میں پیش ہوتے وقت اپنا چہرہ کبھی باکس میں چھپاتے ہیں تو کبھی کسی چمڑے کی جیکٹ میں۔ ان کو بھی پروین بابی کی طرح نامعلوم افراد دھمکیاں دے رہے ہیں۔ (منقول)
الیکٹرونک میڈیا میں چلنے والی سلائیڈوں کے مطابق صورتِ حال بقول عمران خان کچھ اس طرح ہے کہ ’’مجھے زہر دے کر مارا جائے گا، پنجاب پولیس کے 5 لوگ مجھے قتل کریں گے، مجھے آج یا کل مرتضیٰ بھٹو کی طرح قتل کیا جا سکتا ہے، نواز شریف انتظار میں ہے کہ مجھے نا اہل قرار دیا جائے یا قتل کر دیا جائے، جوڈیشیل کمپلیکس میں مجھے مارنے کی سازش کی گئی ہے، آئی جی پنجاب اور آئی جی پولیس اسلام آباد نے میرے قتل کا منصوبہ بنایا ہے، آئی جی پنجاب نے منصوبہ بنایا ہے کہ اپنے ہی لوگ میرے کارکنان میں شامل ہو کر پہلے 45 پولیس والوں کو قتل کریں گے اور اس کا بہانہ بنا کر پھر فائرنگ کرکے مجھے بھی قتل کر دیا جائے گا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہے ان خدشات کا اظہار جو ہر روز کے حساب سے عمران خان بدل بدل کر دے رہے ہیں لیکن جن جن مقامات پر ان کو مارے جانے کا خدشہ ہے اور جن جن منصوبہ بندیوں کے تحت ان کو قتل کیے جانے کی اطلاعات ہیں وہ اب تک ان سب مقامات سے قتل ہوئے بغیر جا جا کر واپس آتے رہے ہیں لیکن ان کے جسم پر ہلکی سی خراش تک نہیں آئی ہے۔ اگر ان کے سارے خدشاتی بیانات کو سامنے رکھا جائے اور اب تک ان کے محفوظ ہونے پر غور کیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انہیں تحفظ فراہم کرنے کے بجائے علاج کی ضرورت ہے۔ موت کا ایک وقت معین ہے اور جو شخص ویسے بھی اللہ سے قربت کا دعویٰ کرتا ہو اسے موت کا اس قدر خوف ہونا ہی نہیں چاہیے۔
اس مرض کی ایک لازمی کیفیت یہ بھی ہوتی ہے کہ ایسا مریض اپنی ہر بات پر اڑ جانے کا عادی ہوتا ہے اور اگر اس کی کسی ’’ہٹ‘‘، خواہ وہ تریا ہو، بالک ہو یا راج، پوری نہ کی جائے تو شعلہ جوالہ بن جاتا ہے اور غصے میں وہ کسی بھی حد کو پار کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ مسئلہ بھی نہایت خوفناک ہوتا ہے کہ ایک ضد یا ہٹ کے پورا کیے جانے کے فوراً بعد اس سے کہیں بڑھ کر ایک اور فرمائش سامنے کر دی جاتی ہے اور اس کا بھی پورا کیا جانا ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ خود کش بمبار کی طرح خود کو پھاڑ کر سیکڑوں جانوں کی تباہی و ہلاکت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اگر 2014 سے عمران خان کی سیاسی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ ساری علامتیں ہر فرد و بشر کے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی چلی جائیں گی جو ایسے مرض کی نمایاں علامات ہوتی ہیں۔ ایک ملک جو بہر لحاظ جمہوریت کی جانب گامزن تھا، بنا جواز اس کی منتخب حکومت کے خلاف 126 دنوں کا دھرنا دے کر اس کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ 2014 سے 2018 تک ہر گلی کوچے کو احتجاجی بینر میں بدل کر رکھ دیا گیا جس کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ نہ خود کھیلو اور نہ کھیلنے دو۔ یہی ہٹ اسے اقتدار تک پہنچانے کا سبب بنی کہ شاید انوکھا لاڈلا چاند پاکر ٹھنڈا پڑ جائے لیکن ایسا مریض جو پاگل پن کا شکار ہو وہ تباہی کا سبب تو بن سکتا ہے، کسی چاند کو مزید چمکانے کا سبب نہیں بن سکتا۔ چنانچہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق پاکستان کی تباہی و بربادی کا مکمل انتظام ہوتا چلا گیا۔ کیا قوم کو یاد نہیں کہ جب تخت و تاج ہلنا شروع ہوئے تو اسی مریض کا کہنا تھا کہ مجھے اقتدار سے باہر کیا گیا تو میں اور بھی خطرناک ہو جاؤں گا۔ گزشتہ دس ماہ سے کیا مریض کی ذہنی کیفیت اس کی خطرناکیت کی غماز نہیں۔ وجہ؟، وجہ وہی کہ اگر ایسے مریض کی خواہش کو پورا نہیں کیا جائے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے لہٰذا ملک کے تمام ڈاکٹروں پر فرض ہو چکا ہے کہ وہ جتنی جلد ہو سکے مریض کو اس مقام پر پہنچانے کا انتظام کریں جو اب اس کا اصل ٹھکانہ ہے ورنہ یقین مانیں سارا آشیانہ تنکا تنکا ہو جائے گا۔