عدالتی اصلاحات کا قانون

477

قومی اسمبلی نے عدالت عظمیٰ کے سربراہ کے اختیارات میں کمی کے قانون کی منظوری دے دی ہے، عدالت عظمیٰ کے طریقہ کار میں تبدیلی کے بارے میں پیش کیے گئے قانون کا اہم تعلق آئین کی دفعہ 184(3) کے تحت ازخود نوٹس لینے کے اختیارات سے متعلق ہے۔ 14 جماعتی اتحادی حکومت نے انتہائی عجلت میں سادہ اکثریت کی بنیاد پر ایسے ماحول میں مذکورہ قانون منظور کرایا ہے جس میں دیگر اداروں کی طرح عدلیہ میں تقسیم کا تاثر گہرا ہوگیا ہے۔ ازخود نوٹس کے معاملے میں عدالت عظمیٰ کے سربراہ کے اختیار کے بارے میں بحث خود عدالت عظمیٰ کے دو فاضل ججوں کے اختلافی نوٹ سے شروع ہوئی ہے۔ یہ مقدمہ صوبہ پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے تھا۔ اختلافی نوٹ لکھنے والے ججوں کا خیال یہ ہے کہ یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں زیر التوا تھا۔ عدالت عظمیٰ کو عدالت عالیہ کی خودمختاری مجروح نہیں کرنی چاہیے تھی، اختلافی نوٹ میں ازخود نوٹس لینے کے فیصلے کو مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ عدالت عظمیٰ کے سربراہ کی جانب سے سماعت کے لیے مقرر کرنے والی مجلسوں (بنچوں) کی تشکیل پر بھی اعتراض کیا گیا ہے۔ اس بارے میں اختلافی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سربراہ عدالت عظمیٰ کے ’’ون مین پاور شو‘‘ کے اختیار پر بھی نظرثانی کرنا ہوگی۔ اس فیصلے کے اجرا کے دوسرے دن ہی حکومت نے عدالتی اصلاح کے نام پر عدالت عظمیٰ کے طریقہ کار و ضوابط کا قانون منظوری کے لیے کابینہ میں پیش کیا جو فوری طور پر منظور کرلیا گیا۔ کابینہ سے وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں گیا، قومی اسمبلی نے اسے قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں بھیج دیا جس نے فوری طور پر منظور کرکے واپس قومی اسمبلی کو روانہ کردیا۔ منگل کو قومی اسمبلی میں پیش ہوا، بدھ کو منظور کرلیا گیا، یہ قانون ایسی اسمبلی نے منظور کیا ہے، جس میں ھزب اختلاف موجود نہیں ہے۔ حکومت میں 13 جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد کو چھوٹے گروپوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ چونکہ حزب اختلاف کی اصل جماعت پاکستان تحریک انصاف ایوان میں موجود نہیں تھی اس لیے منظور شدہ قانون پر نہ کمیٹی میں بحث ہوئی اور نا ہی قومی اسمبلی کے اجلاس میں اور انتہائی تیز رفتاری سے یہ قانون منظور کرلیا گیا۔ منظور شدہ قانون کے مطابق ازخود نوٹس کا فیصلہ عدالت عظمیٰ کے سربراہ دو سینئر ترین ججوں کے ساتھ تین رکنی کمیٹی کرے گی۔ بنچ کا فیصلہ کثرت رائے سے ہوگا۔ ازخود نوٹس کے خلاف اپیل کا حق ہوگا اور 30 دن میں اپیل دائر ہوسکے گی۔ اپیل کی سماعت لارجر بنچ کرے گا اپیل کے لیے کیس 14 دن کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔ وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ عدالت عظمیٰ اپنے قواعد و ضوابط خود بناتی ہے۔ ازخود نوٹس کے استعمال سے عدالت عظمیٰ کے وقار کو ٹھیس پہنچی ہے۔ وزیر قانون کا قومی اسمبلی میں ترمیمی بل پیش کرنے کا جواز بالکل درست ہے۔ عدالتی اصلاح کی آوازیں خود قانون و انصاف کی برادری سے اُٹھتی رہتی ہیں، بے شمار مسائل موجود ہیں جس کی وجہ سے ہمارانظام انصاف عالمی درجہ بندی میں 128 ویں نمبر ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ججوں کو جو مراعات ملتی ہیں اس کا دنیا کے اور ملکوں میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ججوں کی تنخواہوں اور مراعات کے حوالے سے پاکستان کے نظام انصاف کا نمبر پانچواں ہے۔ لیکن یہ قانون ایسے پس منظر میں آیا ہے جس میں سیاسی بحران گہرا ہوتا جارہا ہے۔ محسوس ایسا ہورہا ہے کہ سیاسی بحران کسی طوفان میں تبدیل ہو کر قوم کے لیے ہلاکت خیز ہوجائے گا۔ سیاسی بحران کے حوالے سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ حکومت اور حزب اختلاف میں مذاکرات ہوں، لیکن وزیراعظم میاں شہباز شریف اور ان کے حریف سابق وزیراعظم عمران خان اختلافی موضوعات پر تبادلہ خیال کرکے کسی فیصلے تک پہنچنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے سیاسی اختلاف نے آئینی منصب یعنی چیف الیکشن کمشنر، نیب کے سربراہ اور نگراں حکومتوں کی تقرری کے معاملے میں مشاورتی عمل ناممکن ہوگیا ہے۔ ایسے مواقعے پر تمام فریق عدلیہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عدلیہ کے کردار نے اس کی ساکھ کو مجروح کیا ہے۔ اس وقت جو مسئلہ زیر بحث ہے اس کا تعلق انتخابات کے انعقاد سے ہے۔ پاکستان کے دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں، آئین کے تحت 90 دن میں ان کا انعقاد ضروری ہے۔ عدالت عظمیٰ اس بارے میں فیصلہ دے چکی ہے کہ الیکشن کمیشن صدر پاکستان اور گورنر کے پی کے سے مشاورت کرکے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے۔ اس کے باوجود حکومت اور ریاستی ادارے اپنے قول و عمل سے انتخابات کرانے سے انکار کرچکے ہیں۔ اس معاملے میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے بنچ کی تشکیل یا ازخود نوٹس کی سماعت تکنیکی مسائل ہیں۔ یہ مسائل خود عدلیہ میں تقسیم کے اثر کو ظاہر کررہے ہیں۔ اس تناظر میں عدالتی عمل کا تنازعہ ہونا اور اس حوالے سے حکومت کی جانب سے تیز رفتار قانون سازی انتخاب کے انعقاد کو مشکوک بنارہے ہیں۔ یہ بات تو ہر خاص و عام کے علم میں ہے کہ موجودہ حکمران اتحاد عوامی غیظ و غضب کا شکار ہورہا ہے اور سابق معزول وزیراعظم عمران خان مقبول ہورہے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنت کی مداخلت اور الیکشن کی شفافیت بھی زیر بحث آئی ہے، اس بحث و مناظر میں ناقابل احتساب طاقتور اداروں کا کردار بھی زیر بحث آگیا ہے۔ اس لیے سیاسی مبصرین کو یہ حقیقت بھی نظر آرہی ہے کہ موجودہ حکومتی اتحاد کے ساتھ طاقتور اسٹیبلشمنٹ بھی انتخابات سے فرار چاہتی ہے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ پاکستان میں تسلیم شدہ سیاسی نظام منتخب پارلیمان کی بنیاد پر قائم ہونا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی تاریخ بہت تلخ ہے۔ اس بارے میںسیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین نے درست راستہ اختیار کیا ہے اور نہ جبر کے خلاف عدلیہ کی جانب سے کوئی مزاحمت سامنے آئی ہے۔ اس کے باوجود کچھ کردار مثبت اور کچھ کردار منفی علامت کے طور پر موجود ہیں۔ عدلیہ کے حوالے سے شریف خاندان کا کردار قابل اعتراض رہا ہے۔ شریف خاندان افسر شاہی کے ساتھ عدلیہ میں بھی خریدوفروخت میں ملوث رہا ہے اور تعسبات کو بھی اس نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ ایسے موقع پر جبکہ شریف خاندان انتخابات سے فرار اختیار کررہا ہے سیاسی بحران کا بڑھنا اور عدلیہ کا تقسیم ہو کر متنازعہ بننا پاکستان کے مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ عدلیہ کے کسی فیصلے کے تکنیکی نکات کی بنیاد پر ایک بار انتخابات کے التوا کا راستہ کھولا گیا تو آئین کی حکمرانی کے تصور کا خاتمہ ہوجائے گا۔