بحران در بحران‘ خلل کہاں ہے؟؟

996

پاکستانی سیاست میں بھونچال پاکستانی سرکاری اداروں میں بدنظمی اور کھینچا تانی اور اب عدالت عظمیٰ میں بحران کھڑا ہوا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ججز نے چیف جسٹس کے اختیارات پر سوال اٹھا دیے۔ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کیس میں جسٹس مندوخیل اور جسٹس منصور نے اختلافی نوٹ جاری کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ازخود نوٹس چار ججز نے مسترد کردیا تھا۔ یہ تین/ چار کا فیصلہ ہے۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کے وسیع اختیارات کی وجہ سے عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ یہ درست وقت ہے کہ چیف جسٹس کے وسیع اختیارات پر نظرثانی کی جائے۔ انہوں نے لکھا کہ ججز کو ان کی مرضی کے برعکس بنچ سے نکالنے کی قانون میں اجازت نہیں۔ دونوں ججوں نے نہایت اہم نکتے کی جانب اشارہ دیا ہے کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پوری عدالت کو صرف ایک شخص کے فیصلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ عدالت کا دائرہ اختیار آئین طے کرتا ہے، ججز کی آسانی اور خواہش پر طے نہیں ہوتا۔ ججز کی خواہشات غالب آجائیں تو عدالت سامراجی عدالت بن جائے۔ عدالت سیاسی ادارہ بنے تو عوام کی نظروں میں اس کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے۔ ان ججوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔ ازخود نوٹس کی کارروائی ختم کی جاتی ہے، ہائی کورٹ درخواستوں پر تین روز میں فیصلہ کرے۔ پاکستانی عدلیہ میں یہ بحران کیوں آیا ہے۔ اب اس پر بحث ہوگی۔ چیف جسٹس کے اختیار پر قدغن کی بات ہوگی۔ عدالت کے غیر سیاسی ہونے کے باوجود سیاسی فیصلوں کا معاملہ زیر بحث آئے گا۔ کسی جج کو اچھا اور کسی کو بُرا بھی کہا جائے گا لیکن اس سارے معاملے کے دو پہلے ہیں۔ پہلا اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جب تک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن و سنت کو بالادستی نہیں ملے گی۔ انسانوں کے بتائے ہوئے قوانین کی بنیاد پر عدالت، پارلیمنٹ، بینک، کاروبار، روزمرہ کے معمولات چلتے رہیں گے۔ اس وقت تک یہ سب خرابیاں سامنے آتی رہیں گی۔ دو فاضل ججوں نے چیف جسٹس کے لامحدود اختیارات پر تو تنقید کردی اور اسے ریگولیٹ کرنے کی تجویز بھی دے دی لیکن ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ چیف جسٹس کے فیصلوں کی وجہ سے نہیں ہورہا بلکہ اسلام کے بنیادی اصولوں سے انحراف کے نتیجے میں ہورہا ہے۔ لہٰذا اگر عدلیہ میں جج قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کررہے ہوتے تو ازخود نوٹس، بنچ کی تشکیل تبدیلی اور اختیارات کا معاملہ کھڑا ہی نہیں ہوتا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ عدلیہ خود دورنگی کا شکار ہے۔ اختلافی نوٹ لکھنے والے ججز نے بہت اصولی باتیں کی ہیں لیکن کیا وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ ملک میں ہزاروں لوگوں کو لاپتا کرنے والوں کا کسی جج نے کسی چیف جسٹس نے کیا بگاڑ لیا۔ ان کا زیادہ سے زیادہ بڑا کارنامہ ایک سخت قسم کا جملہ یا چبھتے ہوئے ریمارکس ہوتے ہیں۔ پاکستان کا آئین بار بار پامال کیا گیا لیکن یہ معاملہ کبھی ازخود نوٹس کے زمرے میں نہیں آیا اور جب جنرل پرویز مشرف کے معاملے میں یہ مسئلہ عدالت لایا گیا تو جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ تو ججز یہ بھی بتائیں کہ پارلیمنٹ ہی کیوں بالادست ہو۔ آرمی چیف کیوں لامحدود اختیارات کا حامل ہوتا ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ، خفیہ اداروں اور ان کے سربراہوں کے سامنے اختلافی نوٹ لکھنے والے بھی سُن ہو کر رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں تو اب ایسے سیاسی رہنما بھی کم ہی رہ گئے ہیں جو اس مسئلے کے سرے تک پہنچ سکیں اور غور کرسکیں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ ایسا صرف اس لیے ہورہا ہے کہ پاکستان میں قومی ادارے اپنے اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکلتے رہتے ہیں۔ آج کل جنرل باجوہ اور فیض حمید کا خوب ذکر ہورہا ہے، حالاں کہ جنرل ضیا، جنرل حمید گل، جنرل مشرف وغیرہ اور ان کے ساتھ یہ سب ہی جرنیل اپنے دائرے سے نکلے تھے۔ حالیہ بحران کے بارے میں عمران خان، آصف زرداری، شہباز اور نواز شریف کو ذمے دار ٹھیرانے کے بجائے یہ دیکھا جائے کہ غلط راستہ کب اور کہاں اختیار کیا گیا۔ جب 2018ء کے انتخابات میں فوج نے مداخلت کرکے ایک مشہور لیڈر کو مقبول ترین بنادیا اسے زبردستی وزیراعظم کے منصب تک پہنچادیا اس راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ الیکشن کمیشن، عدالت، میڈیا سب کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا اور عدلیہ نے تعاون کیا، خفیہ اداروں نے تعاون کیا۔ میڈیا، خفیہ ادارے، الیکشن کمیشن یہ سب اپنے غلط فیصلوں کے نتائج کا سامنا کرنے پر مجبور ہوں گے اور ان سب کو اس راستے پر لانے والوں کو بھی نتائج کا سامنا تو کرنا پڑے گا۔ پھر جو ٹوٹ پھوٹ ہوگی اس پر کسی کو الزام دینا غلط ہوگا۔ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ آنے والے دنوں میں عدالت عظمی میں تبدیلیاں آنے والی ہیں اس لیے کہیں چیف جسٹس کے اختیارات کو ضابطوں کے تحت لانے کا مطلب یہ تو نہیں کہ اگلے چیف جسٹس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں ، اور حسب توقع کام شروع بھی ہو گیا بلکہ مکمل ہی ہو گیا ۔ رات کو خبر آئی اگلے دن کابینہ میں عدالتی اصلاحات بل پیش اور منظور کر لیا گیا اور قومی اسمبلی میں پہنچ گیا۔یعنی عدلیہ کے پر قینچ دیے گئے ۔ اگلے مرحلے میں سپریم کورٹ میں ججوں کے تقرر میں ایسا کام کیا جائے گا کہ عدالت میں ‘‘کسی ‘‘ کی مرضی کے زیادہ جج ہو جائیں پھر عدلیہ اور فیصلوں کی مانیٹرنگ آسان ہوجائے گی ، اور یہ سب مسائل ،اپنا دائرہ کار چھوڑ کر دوسرے کے دائرے میں مداخلت کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں ، اس مداخلت پر اصرار کے نتائج بھیانک ہوتے ہیں، افسوس تو یہ ہے کہ یہ نتائج پہلے عوام بھگتتے ہیں ملک کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے اور معاشی سماجی ثقافتی نظام تباہ ہوجاتا ہے ،اور ایسا کرنے والے بیرون ملک جا بستے ہیں اگر غور کریں تو آج کل یہی صورت ہے ، پاکستان آئی ایم ایف کے در پر سجدہ ریز ہے مہنگائی کے مارے عوام در بدر ہیں اور جرائم پر مجبور ہورہے ہیں ، یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے سب کو مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔لیکن کیا یہ پارلیمنٹ اور سیاسی بونے ان مسائل کا حل نکال سکیں گے ۔ جو ایک قانونی دستاویز تو خود نہیں پڑھ سکتے لیکن راتوں رات پیچیدہ قوانین منظور کر لیتے ہیں ۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ا ختلاف کا طریقہ بس یہی رہ گیا ہے کہ ڈیزل، گھڑی چور اور یہودی ایجنٹ کے نعرے لگائے گئے ۔ جن سیاسی رہنمائوں اور وزراء کا یہ معیار ہو وہ ملک کے مستقبل کے بارے میں کوئی سنجیدہ قدم کیونکر اٹھا سکیں گے۔ ان کو جو ہدف دیا جاتا ہے وہ پورا کرتے ہیں اور بس اپنے گھروں کی راہ لیتے ہیں ۔