بلاول کی بچکانہ ضد

624

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول زرداری نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ 18اپریل کو ہونے والے بلدیاتی ضمنی انتخاب ملتوی کیے جائیں انہوں نے اپنی پارٹی کے رہنمائوں کو ہدایت کی ہے کہ اگر الیکشن کمیشن یہ انتخاب ملتوی نہ کرے تو سندھ ہائیکورٹ میں پٹیشن داخل کی جائے انہوں نے کہا کہ اگر جیالا کراچی کا میئر بن جائے گا تو ایسی کون سی آفت آجائے گی۔ صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخاب تین مراحل میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا اب سے سات ماہ قبل پہلے مرحلے کے انتخاب ہوچکے ہیں اس میں بھی 93نشستوں کے ضمنی انتخاب باقی ہیں جو ابھی تک نہیں ہو سکے دوسرے مرحلے کے انتخابات میں 11نشستوں کے یوسی چیئرمین اور وائس چیئرمین بیس سے زائد وارڈ کونسلروں کے ضمنی انتخاب باقی ہیں ان تمام نشستوں پر انتخاب کرانے کے لیے الیکشن کمیشن نے بمشکل تمام18اپریل کی تاریخ دی تھی، پتا نہیں کیوں پی پی پی کے پیٹ میں یہ مروڑ اٹھا ہے کہ یہ انتخاب ملتوی کیے جائیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن بھی پیپلز پارٹی کی ماتحتی میں کام کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے تاخیری حربوں سے بالآخر فائدہ پیپلز پارٹی ہی کو پہنچ رہا ہے کہ بلدیات کے سارے فنڈز اس کے قبضے میں ہیں اور وہ اس کو اللے تللے خرچ کررہے ہیں۔
یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جمہوریت جمہوریت کا راگ الآپنے والے آمرانہ فیصلے کررہے ہیں یہ کتنی تشویشناک بات ہے کہ پہلے مرحلے کے انتخابات کو سات ماہ سے زیادہ ہوچکا ہے اور وہاں کے بلدیاتی سطح کے ایوان ہی مکمل نہیں ہوپائے یا پی پی پی نے ہونے نہیں دیا حالانکہ اس انتخاب میں بہت بڑی اکثریت پیپلز پارٹی ہی کو ملی ہے لیکن وہاں بھی پی پی پی بلدیاتی سیٹ اپ بنانے سے گریز کررہی ہے اس سے لگتا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی سطح کے لوگ بیوروکریسی کے ساتھ مل کر بلدیاتی فنڈز پر ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں، دوسرے مرحلے کے انتخاب میں حکومت سندھ کا واسطہ جماعت اسلامی سے پڑگیا۔ جماعت اسلامی نے انتخابی میدان میں پی پی پی کو شکست دی ہے کہ کراچی میں وارڈ کونسلروں کی تعداد پیپلز پارٹی سے زیادہ ہے لیکن میئر کراچی کے انتخاب میں صرف یوسی کے چیئرمین ووٹ دے سکیں گے۔ اس وقت کراچی کی نمبر پوزیشن اس طرح ہے کہ پی پی پی کو جماعت اسلامی پر دو نشستوں کی برتری حاصل ہے لیکن اسے یہ خوف کھائے جارہا ہے کہ جن بیس نشستوں کے نتائج الیکشن کمیشن نے روک لیے ہیں اور گیارہ نشستوں پر انتخاب ہونا ہے اگر الیکشن کمیشن نے بیس نشستوں کا فیصلہ کرلیا اور گیارہ پر انتخابا ت ہو گئے تو جماعت اسلامی پی پی پی سے آگے بڑھ جائے گی۔
ان ہی وجوہات کی بنیاد پر پیپلز پارٹی سندھ کے ایک رہنما نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا ہے کہ کراچی میں فوری طور پر میئر کے انتخابات کرادیے جائیں۔ پیپلز پارٹی پچھلے پندرہ برسوں سے صوبہ سندھ کی سیاہ و سفید کی مالک ہے بیوروکریسی میں اس پارٹی کے لگائے ہوئے لوگوں کی اکثریت ہے وہ پارٹی پالیسی کو اپنے سارے کاموں پر ترجیح دیتے ہیں، اسی لیے پیپلز پارٹی من پسند فیصلے کرتی ہے۔ بلاول زرداری کے بیان سے یہ سوال تو اٹھتا ہے کہ پہلے مرحلے کے انتخاب میں جہاں پی پی پی نے واضح کامیابی حاصل کی ہے وہاں پر ٹائون چیئرمین، ضلعی چیئرمین اور دیگر نشستوں کے انتخاب کیوں نہیں کراتے جبکہ یہ سب جانتے ہیں کہ یہاں کی خواتین، مزدور، یوتھ اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر پی پی پی ہی کامیاب ہوگی۔ حیدرآباد میں پی پی پی جیتی ہوئی ہے وہاں آپ میئر کا انتخاب کیوں نہیں کرواتے کہ وہاں پی پی پی کی جیت یقینی ہے، لیکن اصل رکاوٹ یہ ہے کہ یہاں کے بلدیاتی فنڈز بلدیاتی محکموں کو دینے پڑیں گے، حالانکہ ہر جگہ ان ہی کے لوگ ہوں گے، لیکن پیپلز پارٹی یہاں کے بلدیاتی فنڈز پر بھی اپنا کنٹرول رکھنا چاہتی ہے اب رہا مسئلہ کراچی کا کہ یہاں پر جماعت اسلامی اکثریت سے کامیاب ہوئی ہے پی پی پی نے پری پول دھاندلی کرکے اپنی پسند کی یوسی کی حلقہ بندی کہ گوٹھوں میں تو 20ہزار کی آبادی پر حلقے بنائے اور شہری علاقوں میں 70ہزار کی آبادی پر حلقے بنائے اس طرح پیپلز پارٹی کراچی کے دیہی علاقوں ملیر، لیاری اور کیماڑی سے دھاندلی کرکے نشستیں حاصل کی ہیں یہ چونکہ کراچی شہر ہے اور سامنے جماعت اسلامی ہے جو پی پی پی کے فراڈ کو عوام کے سامنے لارہی ہے۔
کراچی ملک کا معاشی حب ہے، ملک کے بجٹ کا 70فی صد اس شہر سے جاتا ہے صوبہ سندھ کے سارے اخراجات اس شہر کے ٹیکسوں سے پورے ہوتے ہیں پورے ملک سے لوگ یہاں روزگار کے لیے آتے ہیں، پیپلز پارٹی کے لیے کراچی شہر ایک دودھ دیتی گائے ہے یہ گائے وہ کسی اور کے حوالے کیوں کرے گی اور وہ بھی جماعت اسلامی کے حوالے، پی پی پی کو یہ خوف ہے کہ اگر کراچی میں جماعت کا میئر آگیا تو ہم نے پچھلے پندرہ بیس سال میں جو لوٹ مار کی ہے وہ سب پاکستان کے عوام کے سامنے آجائے گا۔ اس وقت ہو یہ رہا کہ بلدیاتی فنڈز میں جو رقوم موجود ہے پی پی پی کے لوگ سیاسی دبائو کا استعمال کرتے ہوئے بیوروکریسی سے ترقیاتی کاموں کی فائلیں تیار کروا رہے ہیں اور اپنے جھنڈے لگا کر یہ تاثر دینے کی کوشش ہورہی ہے کہ یہ سارے کام پی پی پی کروا رہی ہے جبکہ حقائق یہ ہیں کہ ہر یوسی میں جو فنڈز بچے ہوئے ہیں یہ اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہر یوسی میں پانچ لاکھ روپے ماہانہ آتے ہیں ایم کیو ایم کے وسیم صاحب کی میئر شپ ختم ہوئے ڈھائی سال ہو گئے اس درمیان میں ہر یو سی میں پانچ لاکھ روپے آتے رہے اور فرضی فائلیں بنتی رہیں اور آپس میں رقوم کی بندر بانٹ ہوتی رہی اور زمین پر عملاً کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوئے لیاقت آباد میں سیوریج کے مسائل اتنے سنگین ہوگئے ہیں لوگوں کا جینا دوبھر ہو گیا ہے ان ڈھائی سال میں یوسی کے اسٹاف کی تنخواہیں نکال کر بقیہ تمام رقوم برسراقتدار پارٹی کے لے پالکوں نے فرضی فائلیں بنا کر آپس میں تقسیم کرلیں۔ اس لوٹ مار کی تحقیق ہونا چاہیے اور اس کے لیے عدالت عالیہ کی نگرانی میں ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنایا جائے جو کراچی کے عوام کے پیسوں اور حقوق پر جو ڈاکے ڈالے گئے ہیں ان کی تحقیقات کرے اور ذمے داروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔
اس وقت پی پی پی کی اصل پریشانی یہ ہے کہ اگر جماعت کا میئر آگیا تو کراچی میں پانچ برسوں میں جو کام ہوگا وہ پی پی پی کے پندرہ برسوں کے کام سے کہیں آگے ہوگا، اس لیے کراچی کے شہریوں کا یہ سوال تو بنتا ہے ان کے کروڑوں روپے کہاں گئے؟بلاول زرداری کی خدمت مودبانہ طور پر ہم یہ بات گوش گزار کرنا چاہیں گے کہ ابھی بلدیہ کا ایوان مکمل نہیں ہوا ہے اور محض دو چار سیٹوں کی اکثریت سے آپ جیالامیئر لانا چاہتے ہیں۔ 1970 کے انتخاب میں عوامی لیگ کو آپ سے دوگنی سیٹیں ملی تھیں، عوامی لیگ کی 161 تھیں اور پیپلزپارٹی کی 81 سیٹیں تھیں اگر آپ کے نانا جان اکثریت کی بنیاد پر عوامی لیگ کو جمہوری اصولوں کے تحت حکومت بنانے کا موقع دیتے تو پاکستان ٹوٹنے سے بچ جاتا اور پوری امت مسلمہ کی اتنی ذلت و رسوائی بھی نہ ہوتی۔