نشہ ٔ خدمت سرکار

655

الیکشن کا نقارہ بجتے ہی بہاولپور صوبے کی بحالی کا ڈھول بھی بڑے زور و شور سے بجنے لگا ہے۔ اور ایسے لوگ بھی لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں کود پڑے ہیں اور جوش ملیح آبادی کی طرح برملا کہہ رہے ہیں کہ ہم نے وہ کام کیا ہے جو رستم زماں بھی نہیں کر سکتا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان لوگوں نے پنجاب صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی سے بہاولپور صوبے کی قرار داد منظور کر ا لی تھی۔ جس پر بہاولپور دشمن قوتوں نے عمل نہیں ہونے دیا۔ یہ ایسا جھوٹ ہے کہ جس کی مذمت قومی فریضہ ہے۔ کیونکہ یہ دعویٰ بھی بہاولپور صوبے کی بحالی کی قرارداد کی طرح سیاسی بیان ہے۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ یہ لوگ عدالت جانے سے گریزاں ہیں اور اس گریز پائی کی وجہ یہ ہے کہ عدالت میں بہاولپور صوبے کا ثبوت دینا پڑے گا مگر 1727ء سے 1955ء تک بہاولپور ریاست تھی۔ جس کی حیثیت کو ون یونٹ کی آڑ میں ختم کر دیا گیا۔
ڈاکٹر شاہد حسن رضوی اپنی تحقیقاتی کتاب بے مثال ریاست کا شہر بے مثال بہاولپور کے ابتدائیہ میں رقم طراز ہیں کہ ’’سابق ریاست بہاولپور (1727ء سے 1955ء) تک اپنے فرماںرواؤں کی مدبرانہ حکمت عملی، علمی و ادبی ترقی اور عظیم روایات کے فروغ کے دم قدم برصغیر کی دیسی ریاستوں میں منفرد و ممتاز مقام کی حامل رہی ہے۔ علم و حکمت اور زبان و ادب کے حوالے سے بہاولپور کو کئی امتیازات حاصل ہیں جن میں سب سے اہم اٹھارویں صدی عیسویں میں اردو زبان کو یہاں کی دفتری زبان کا درجہ حاصل ہونا ہے‘‘۔
اکثر دانشوروں کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو قیامت تک زندہ رہیں گے۔ کیونکہ انہوں نے قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا تھا۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ بھٹو نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ آج میں نے اپنے محضر نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔ کیونکہ اب یہ لوگ میری جان کے دشمن بن جائیں گے۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا اعزاز بھی بہاولپور کو حاصل ہے کیونکہ بھٹو مرحوم سے پہلے ریاست بہاولپور کے نواب یہ کارنامہ سر انجام دے چکے ہیں۔ بہاولپور برصغیر کی بہت خوشحال ریاست تھی مگر جب اسے لاہور کی جھولی میں ڈالا گیا اور اس کے ہاتھ میں کشکول پکڑا دیا گیا تو بہاولپور کا شمار پاکستان کے غریب ترین علاقوں میں ہونے لگا مگر یہاں کے سیاست دانوں کی مالی حیثیت مستحکم ہوتی گئی۔ جن کے پاس گھر بنانے کے لیے چند گز کا پلاٹ بھی نہ تھا زمینوں کے مالک بن گئے ہیں۔ کیونکہ کشور پنجاب شاد باد ان کی سیاست کا منشور ہے۔ وطن عزیز کے سیاست دان ہمہ وقت جمہوریت کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں جمہوریت اندھی، کانی، لولی لنگڑی بھی ہو تب بھی حسن مآب بادشاہت سے بہتر ہے۔ مگر زمینی حقائق کہتے ہیں کہ جمہوریت ایک ایسا گناہ ہے کہ جس کی توبہ بھی قابل قبول نہیں۔ وطن عزیز کی تباہی اور بربادی کی بنیادی وجہ یہ نام نہاد جمہوریت ہے۔ مروجہ جمہوری نظام میں عوام کو بچہ جمہورہ بنا کر اپنا خانہ زاد بنا لیا جاتا ہے۔ ملک کے تمام وسائل جمہوریت دیوی کی بھینٹ چڑھا دیے جاتے ہیں۔ اور عوام کو سبسڈی کے نام پر بھیک دی جاتی ہے۔ آج جمہوریت آؤ رادھا کھائیں مل کے آدھا آدھا کے مترادف ہے۔ یہ کیسا تماشا ہے کہ بھکاری بھیک دینے کے دعویدار بنے ہوئے ہیں۔ کسی دل جلے کا کہنا ہے کہ نوٹ مانگے یا ووٹ مانگے، مانگنے والا بھکاری ہی ہوتا ہے اور ہم ایسے بھولے بادشاہ ہیں جو ان بھکاریوں کو آقا سمجھتے ہیں۔ یہ کیسا بھول پن ہے کہ جو لوگ بہاولپور کو صوبہ بنانا نہیں چاہتے انہیں کی دہلیز پر سر جھکائے کھڑے رہتے ہیں۔ جب تک بہاولپور کی بحالی کا مطالبہ نہیں کیا جاتا کچھ نہیں ہوگا۔ البتہ بہاولپور کو صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا جائے تو بہاولپور یقینا صوبہ بن جائے گا۔ جو لوگ ریاست بہاولپور کا پاکستان سے الحاق کی بات کرتے ہیں لاشعوری طور پر ریاست بہاولپور کی بحالی کی بات کرتے ہیں کیونکہ الحاق کا مطلب اپنی ملکیت سے دست بردار ہونا نہیں ہوتا۔ ایسے موقعے پر ہمیں علامہ اقبال کی ایک نظم یاد آجاتی ہے جس کے کچھ اشعار نظر قارئین ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے ؎
کی عرض یہ میں نے کہ عطا فقر ہو مجھ کو
آنکھیں مری بِینا ہیں، و لیکن نہیں بیدار!
آئی یہ صدا سلسلہ فقر ہْوا بند
ہیں اہلِ نظر کِشورِ پنجاب سے بیزار
عارف کا ٹھکانا نہیں وہ خِطّہ کہ جس میں
پیدا کْلَہِ فقر سے ہو طّْرۃ دستار
باقی کْلَہِ فقر سے تھا ولولۂ حق
طْرّوں نے چڑھایا نشۂ ’خدمتِ سرکار‘!