صوبائی انتخابات کا قضیہ

389

نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
پنجاب اور خیبر پختون خوا کے ضمنی انتخابات میں دونوں جانب کے سیاست دان ایک دوسرے پہ لفظوں کی گولہ باریاں کرتے رہے، مگر وہ ایک معصوم خصوصی بچے ظل ِ شاہ اپنی جان یوں کھو بیٹھا کہ فیض احمد فیض کے اوپر بیان کیے گئے شعر کی مکمل تشر یح کر گیا۔ ہاں اس کا خون خونِ خاک نشیناں تو تھا جو ان سیاستدانوں کی بھینٹ چڑھ کر رزقِ خاک ہوگیا۔ اور اب پنجاب اور خیبر پختون خوا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے معاملات بیک وقت روشنی اور سایوں کی زد میں محسوس ہو رہے ہیں۔ گورنر خیبر پختون خوا حاجی غلام علی کی ٹی وی گفتگو کے بموجب کے پی میں انتخابات کی تاریخ دینا عید کا چاند دیکھنے سے بھی مشکل کام ہے۔ جبکہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ آدھے ملک میں پرانی اور آدھے میں نئی مردم شماری پر الیکشن ہوں گے تو مسائل پیدا ہوں گے۔ آئینی کیفیت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایک اعلیٰ افسر کے اس بیان سے واضح ہے کہ آرٹیکل 220 تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز کو پابند کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فرائض اور امور کی ادائیگی میں اس کے ساتھ تعاون کریں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب میں عام انتخابات کا شیڈول جاری کردیا جس کے مطابق صوبے میں 30اپریل کو الیکشن ہوں گے جبکہ خیبر پختون خوا میں الیکشن کے انعقاد کے لیے ای سی پی اور صوبائی گورنر کے اجلاس میں تاریخ طے نہ پاسکی۔ صوبائی گورنر نے اس باب میں مزید ایک ہفتہ مانگ لیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے بدھ کے روز جاری ہونے والے شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی 12 سے 14 مارچ تک جمع کرائے جائیں گے، امیدواروں کی ابتدائی فہرست 15مارچ کو آویزاں کی جائے گی، کاغذات نامزدگی پر جانچ پڑتال کا عمل 22مارچ تک جاری رہے گا۔ کاغذات
نامزدگی پر اپیلیں 27مارچ تک جمع کرائی جاسکیں گی، الیکشن ٹریبونلز اپیلوں کو 3اپریل تک نمٹائیں گے، امیدواروں کی نظرثانی شدہ فہرست 4اپریل کو جاری کی جائے گی، 5اپریل تک کاغذات نامزدگی واپس لیے جائیں گے۔ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے ترجیحی فہرستیں 14اپریل تک جمع کرائی جاسکیں گی، پولنگ کا عمل 30اپریل کو ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی کمیشن نے عمران خان کی جیت کے بعد خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی 6نشستوں پر الیکشن کا شیڈول بھی جاری کردیا۔ ان حلقوں میں شیڈول پنجاب اسمبلی والا ہی ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے جمعرات کے روز وزارت داخلہ اور خزانہ کے ساتھ بریفنگ کی نشستیں کیں۔ اسی نوع کی نشستیں وزارت دفاع اور ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ سے بھی ہوئیں۔ جن کی تفصیلات ان سطور کی اشاعت کے ساتھ سامنے آنے کی توقع ہے۔ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب، چیف سیکرٹری اور آئی جی سے الیکشن انتظامات پر بریفنگ پیر کو لی جائے گی۔ یہ سب چیزیں وسیع و ہمہ جہت انتخابی عمل کی تیاریوں کا حصہ ہیں۔ الیکشن کمیشن کے بیان کے بموجب گورنر کے پی سے ملاقات میں بھی سیکرٹری ای سی پی نے واضح کیا تھا کہ ان سے ملاقات کا مقصد صرف صوبائی الیکشن کمیشن کی تاریخ لینا ہے۔ امن و امان، پولنگ اور دیگر انتظامات کو نگراں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے میٹنگ میں حتمی صورت دی جائے گی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخا بات کے شیڈول کا اجرا تنائو بھرے اس سیاسی ماحول میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔ عدالت عظمیٰ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں نوے روز کی آئینی مدت میں یا اس سے قریب ترتاریخ پر صوبائی اسمبلی کے انتخابات کرانے کا حکم دے چکی ہے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں شیڈول کا اعلان عدالت عظمیٰ کے اس حکم نامے کی تعمیل معلوم ہوتا ہے۔ اب صوبائی اور وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ صوبے میں شفاف غیر جانبدارانہ منصفانہ اور پُر امن انتخانات یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے وفاقی حکمران اتحاد کا اپنا نقطہ ٔ نظر ہے مگر اس معاملے میں آئینی تقاضے حکومتی منشا پر فائق ہیں۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ کسی حکمران جماعت یا اتحاد کی خاطر عام انتخابات کو ملتوی کر دینا غلط روایت پیدا کرے گا۔ انتخابی عمل جمہوریت کا لازمہ ہے۔ چنانچہ اسے کسی جماعت یا اتحاد کے سیاسی مفادات اور مقاصد سے بالاترہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ مستحکم جمہوریتوں میں انتخابات کے التوا کو خارج از امکان تصور کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ترکیہ کی مثال ہمارے لیے مشعل ِ راہ ہونی چاہیے جہاں اس سال کے بدترین زلزلے کی تباہ کاریوں اور پینتالیس ہزار اموات کو بھی عام انتخابات میں التوا کا حیلہ نہیں بننے دیا گیا۔ ہمارے سیاستدانوں کو صدر اردوان کے اس فیصلے سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ پنجاب میں الیکشن کا شیڈول جاری ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اب مزید ہیجان پیدا کرنے سے اجتناب کریں اور معیاری جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے الیکشن قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی انتخابی مہم چلائیں اور انتخابات کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات کو غلط ثابت کریں۔
لاہور میں گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ریلی نکالنے کی کوشش اور اس پر پولیس کی جانب سے طاقت کا استعمال افسوسناک تھا۔ سیاسی کارکنوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا قانونی حق حاصل ہے مگر وہیں ان پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ قانون کی پابندیوں کا احترام کریں بہرحال سیاسی کارکنوں کے خلاف طاقت کا استعمال خطر ناک عمل ہے اور سرکاری مشینری کو اس معاملے میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہمارے جیسے معاشرے جہاں مہنگائی معاشی کسمپرسی بدامنی افلاس اور محرومیوں کی وجہ سے پہلے ہی عوامی جذبات کا پارہ خاصا بلند ہے طاقت کے استعمال کے ایسے واقعات سماجی بے چینی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ چنانچہ حکومت کی جانب سے یقینی بنایا جانا چاہیے کہ اس حکمت عملی سے حتی الوسع گریز کیا جائے۔ آج ملک جن مسائل کا سامنا کررہا ہے اس میں جارحانہ سیاست کا عمل دخل سب سے زیادہ ہے۔ جہاں تک ہو سکے اس جلتی پر تیل ڈالنے سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ پنجاب میں الیکشن کا شیڈول جاری ہونے کے بعد سبھی سیاسی جماعتوں کے لیے یکساں میدان کھلا ہے اب آپس میں الجھنے کے بجائے کیوں نہ عوام کے پاس جا کر اپنی کارکردگی اور مستقبل کے ارادوں کو پیش کر کے عوامی حمایت کے لیے جدوجہد کی جائے تاکہ اب مز ید کوئی اور ظل ِ شاہ اپنی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے۔