آئی ایم ایف کا مطالبہ: ایٹمی تحفظ پر خرچ بند کرو؟

812

پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے کرتے نوبت یہاں آپہنچی ہے کہ چند دن قبل وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ آئی ایم ایف جس قسم کی شرائط عائد کر رہا ہے ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جس بعد ’’رضا ربانی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا آئی ایم ایف کے ساتھ سمجھوتے کی شرائط میں نیوکلیر اثاثے دباؤ کا شکار ہیں؟‘‘ ہم یہ سب کچھ13مارچ کو سابق وزیر ِ خزانہ عبدالحفیظ کی پریس کانفرنس سے کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے ہونے والا معاہدہ انتہائی خطرناک اور ملک کی بقا اور سالمیت کے لیے بد شکون ثابت ہو سکتا ہے اور آئی ایم ایف حکومت ِ پاکستان کو اسی شرط پر قرض دے گا جب پا کستان بھارت اور اسرائیل کی شرائط منظور کر تے ہوئے اپنے ایٹمی اثاثوں کو منجمد کرنے کی حامی بھرے گا۔ پی ڈی ایم کی حکومت اپریل 2022ء سے کہہ رہی ہے بس آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا کہ ہوا، لیکن 6سے 8مارچ 2023ء کو ہونے والے آئی ایم ایف کے اجلاس میں پاکستان کے قرض کے مسائل گھوم پھر کر معاملات وہیں آجاتے ہیں جہاں سے شروع ہوتے ہیں اور دوسری جانب پائی پائی کو ترسنے والے پاکستان پر کسی سامراجی قوت کی خطے میں موجودگی میں کردار ادا کرنے میں سہولت کاری کے لیے دباؤ بڑھایا جارہا ہے؟ یہ بارودی سررنگ کب اور کہاں لگائی گئی؟ اس کی کھوج 13مارچ 2020ء کو سابق وزیرِ خزانہ عبدالحفیظ کی پریس کانفرنس سے لگایا جاسکتا ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں، معاملات اُس جانب بڑھ رہے ہیں جہاں ریاست کو خود کلامی سے نکلنا ہوگا، سامنے آتی سچائی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا ہوں گی اور سچ بتانا ہوگا۔
سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین کا کہنا ہے کہ عمران حکومت نے 10 ارب ڈالر کی برآمدات کرکے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا دیا ہے‘ گردشی قرضے اور ناکام سرکاری کمپنیوں کی موجودگی میں اطمینان بخش شرح نمو کا حصول ناممکن ہے اور اسی وجہ سے ملک کی معیشت نہیں سنبھل رہی ہے۔ گردشی قرضہ 2.6 ٹریلین روپے سے بڑھ چکا ہے جبکہ رواں سال ناکام سرکاری کمپنیوں کے نقصانات 1879 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جن سے جان چھڑانا ضروری ہو گیا ہے، یہ کمپنیاں غیر ملکی قرضے اور ٹیکس دہندگان کے پیسے ہڑپ کر رہی ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے توانائی کے شعبے میں اصلاحات پر زور دینا خوش آئند ہے مگر یہ ناکافی ہے۔ بجلی کی قیمت مسلسل بڑھانے کے بجائے بجلی چوری، لائن لاسز کا خاتمہ اور بل وصولی کو لازمی بنا کر بجلی کی قیمت میں 3 روپے فی یونٹ کمی کی جاسکتی ہے۔
آئی ایم ایف عالمی مالیاتی ادارہ ہے جو پسماندہ ملکوں کو قرضے فراہم کرتا ہے۔ امریکا کے ڈی کلاسیفائیڈ پیپرز اور فارن افیئرز کی رپورٹوں کے مطابق آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک امریکا کے مالیاتی ہتھیار ہیں جن کے ذریعے امریکا دنیا کے مالیاتی نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ دونوں مالیاتی ادارے امریکا کی معاشی اور سیکورٹی پالیسی کا حصہ ہیں۔ امریکا ان اداروں کو دنیا بھر میں اپنے عالمی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتا ہے اور قرضے لینے والے ملکوں کے بازو مروڑتا ہے تاکہ وہ اپنے قومی مفادات پر امریکی مفادات کو ترجیح دیں۔ پاکستان نے امریکا سے پہلا مالیاتی پروگرام 1958ء میں لیا تھا اس کے بعد 2023ء تک 23 پروگرام لے چکا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضے لینے والوں میں جنرل ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان سب شامل ہیں۔ 2018ء میں عمران خان نے پاکستانی قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ خود کشی کر لیں گے مگر وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ افسوس انہوں نے بھی 2019ء میں آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کر لیا اور پھر اس پر ظلم یہ کیا کہ انہوں نے سیاسی عزائم کے تابع آئی ایم ایف کا پروگرام معطل کر دیا۔ آج میاں شہباز شریف کی حکومت آئی ایم ایف کے معطل شدہ پروگرام کو دوبارہ جاری کرانے کے لیے جتن کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آیا تھا جو حکومت پاکستان کے ساتھ پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے مذاکرات بھی ہوئے لیکن ڈھاک کے تین بات کی طر ح نتیجہ کچھ بھی نہیں تھا۔ 13مارچ 2020ء کو سابق وزیرِ خزانہ عبدالحفیظ کی پریس کانفرنس کی کہی اور نہ کہی دونوں باتیں پوشیدہ ہیں۔ اس پریس کانفرنس کی ساری باتیں ابھی تک پوری طرح آشکار نہیں ہوئیں اور قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ آئی ایم ایف پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ دفاع کے اخراجات کم کیے جائیں اور انہیں شفاف بنایا جائے۔ امریکا پاکستان پر چین کے ساتھ تعلقات اور سی پیک کے سلسلے میں بھی دبائو ڈالتا رہا ہے۔ آئی ایم ایف امریکا کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے مالیاتی حربے استعمال کر سکتا ہے۔
آئی ایم ایف نے قرضے فراہم کرنے کے لیے یہ شرائط عائد کی ہیں کہ پاکستان بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرے۔ گریڈ 17 سے گریڈ 22 کے تمام افسروں کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے اندرونی اور بیرونی اثاثے قوم کے سامنے ڈکلیئر کریں۔ اس سلسلے میں اقدامات جاری کر دیے گئے ہیں جن پر عمل درآمد کے لیے ایف بی آر نے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔ آئی ایم ایف نے پٹرولیم کی مصنوعات پر جی ایس ٹی لگانے کی شرط بھی عائد کی ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومت سے کہا ہے کہ پاکستان ٹیکس نیٹ کو وسیع کرے اور اشرافیہ کو جو سبسڈی دی جارہی ہے وہ واپس لی جائے۔ آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کے وہ شہری جو 300 یونٹ بجلی استعمال کرتے ہیں اور حکومت ان کو سبسڈی دے رہی ہے تاکہ ان کو شدید غربت سے بچایا جا سکے ان کی سبسڈی بھی ختم کی جائے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان اسٹیل اور دو پاور یونٹس کی نج کاری کا مطالبہ کر دیا ہے حکومت گردشی قرضے ایک ہزار ارب روپے کم کرنے پر آمادہ ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف جس انداز سے پاکستان کو خطرناک شکنجے میں کس رہا ہے اس سے پاکستان کی آزادی اور سلامتی کے بارے میں خدشات پیدا ہو چکے ہیں۔ مالیاتی ماہرین کا یہ خیال ہے کہ آئی ایم ایف آخر کار پاکستان کو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ پاکستان ایک غریب پسماندہ ملک ہے اور قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے تو وہ اپنے ایٹمی اثاثوں کی سیکورٹی پر اربوں روپے خرچ کیوں کر رہا ہے۔
پاکستان قرضوں کو ایسے منصوبوں پر خرچ کر رہا ہے جن سے اس کو کوئی آمدن نہیں ہو رہی، یہ پالیسی انتہائی تشویشناک اور افسوسناک ہے کہ بیرونی قرضے امیروں پر خرچ کیے جاتے ہیں جبکہ ان کا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جاتا ہے۔ ملک اور عوام تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ سیاسی انتشار معاشی عدم استحکام دہشت گردی حکمران اشرافیہ کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ انداز حکومت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہنگامی نوعیت کے ایسے اقدامات اٹھانے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے جو معاشی استحکام کے لیے لازم ہوں۔ آئی ایم ایف کی ایسی شرائط تسلیم نہ کی جائیں جس سے ملک کی آزادی اور سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہوں۔