دوڑ دھوپ

764

’’تم دیکھتے ہو کہ ان میں سے بکثرت لوگ ظلم اور زیادتی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں اور حرام کے مال کھاتے ہیں بہت بری حرکات ہیں جو یہ کررہے ہیں‘‘۔ (مائدہ: 62)
دنیا کا ہر انسان اس دنیا میں جدوجہد اور دوڑ دھوپ میں لگا ہوا ہے یہ تمام دوڑ دھوپ اور جدوجہد اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر مقاصد کی تقسیم دو طرح کی ہیں ایک انسان اپنے نفس کی خواہشات کی تکمیل کے لیے اس دنیا میں دوڑ دھوپ اور جدوجہد کرتا نظر آرہا ہے اس طرح کے لوگوں کی دنیا میں اکثریت ہے۔ دوسرے گروہ میں انسانوں کی تعداد کم ہے مگر اس گروہ نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے دوڑ دھوپ ازخود نہیں شروع کرلی ہے بلکہ ان کا مقصد ان کو دنیا میں بھیجنے والے ربّ نے طے کرکے دیا ہے مقصد کے حصول کی جدوجہد کیسے کرنی ہے، اس کے لیے وہ اپنے برگزیدہ انبیاء و رسل بھیجتا رہا ہے۔ نفس کی خواہشات کی تکمیل کے لیے جو گروہ دوڑ دھوپ کررہا ہے وہ محض اپنے لیے راہیں اندازے سے متعین کرتا ہے یا اپنے آبا واجداد کی اندھی تقلید میں اپنے راستے کا انتخاب کرتا ہے یہ دراصل شیطان ہی ہے جو ان کے لیے اس راستے کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ ویسے تو اس کی مثالیں بہت ہیں لیکن دیگ کے ایک چاول کو ہی دیکھ کر اندازہ ہوجائے گا۔ گزشتہ دنوں صدر صاحب کی ایک ٹویٹ پر نظر پڑی جس میں موصوف نے اقوام متحدہ کے آبادی فنڈ کے پاکستان میں نمائندہ ڈاکٹر لوئے شبانے سے ملاقات کے بعد کیا ٹویٹ کیا ملاختہ فرمائیے
’’صدرمملکت سے اقوام متحدہ کے آبادی فنڈ کے پاکستان میں نمائندہ، ڈاکٹر لوئے شبانے، کی ملاقات صدر مملکت کا تولیدی صحت کے فروغ اور بڑھتی آبادی پرقابو پانے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کے متعلق معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانے پر زور آبادی میں تیزی سے اضافہ قومی وسائل پر زبردست دباؤ ڈال رہا ہے، صدر مملکت کی نظر میں گویا پاکستان میں جو سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی اور اس سے متعلق رویوں میں تبدیلی لانے پر زور دے رہے ہیں صدر صاحب رویوں میں تبدیلی لانے کی فکر میں ہیں گویا پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کا معاشرتی رویہ ٹھیک نہیں، کیا اس سے زیادہ ٹھیک معاشرتی رویہ خاندانی منصوبہ بندی کا کوئی اور ہو سکتا ہے کہ ہمارے یہاں نکاح کا ادارہ موجود ہے، مغرب میں شادی کا ادارہ ختم ہونے کے قریب ہے مرد عورت ساتھ رہتے ہیں اور کچھ عرصے رہنے کے بعد اپنی اپنی راہ لے لیتے ہیں ایسے میں اولاد کے بارے میں سوچنا بھی عبس ہو اور اب تو الاامان والاحفیظ کہ مرد مرد سے اور عورت عورت سے شادی کرنے کو بھی وہاں قانونی شکل دے دی گئی ہے۔ ہمارے قومی وسائل کم ہورہیں اس کا سبب بھی آبادی میں اضافہ ہے۔ آبادی میں کمی لانے کی فکر سب سے پہلے مغرب سے شروع ہوئی اور اس فکر میں مغرب نے اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی ماری ہے انہوں نے اپنے لیے جو راستہ اور جو منزل طے کی تھی وہ یہ تھی کہ آبادی کم رہے گی تو موجودہ وسائل سے وہ خوشحالی کی طرف تیزی سے سفر کریں گے یورپ اپنے اس خود ساختہ منصوبے میں کہاں تک کامیاب ہوا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج سے پچاس سال پہلے وہاں شادی کا ادارہ موجود تھا والدین جب دنیا سے رخصت ہوتے تھے تو ان کے چار پانچ بچے ہوتے تھے یعنی میاں بیوی دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اپنے بعد دنیا کو چار پانچ انسان دے کر جاتے تھے وہ چار پانچ انسان دنیا کی تعمیر و ترقی میں اور انسانیت کی خدمت میں اپنی صلاحیت سے وسائل میں اضافہ کا سبب بنتے تھے۔ لیکن آج وہاں شادی کا ادارہ انہوں نے خود تباہ کرلیا ہے جس کی وجہ سے آج وہاں شرح پیدائش خطرناک حد تک کم ہوچکی ہے ٹھیک ہے شرح اموات میں کمی واقع ہوئی ہے لوگوں کی اوسط عمروں میں اضافہ ہوا ہے مگر عمر میں اضافہ انسان کو جوانی کی طرف نہیں بلکہ ضعیفی کی طرف لے کر جاتا ہے اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ضعیفی اعضاء کے مضمحل ہونے کا نام ہے۔ معاشرے کو عمر رسیدہ افراد کے تجربے کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر اگر جوان خون معاشرے کی آبادی کا حصّہ نہیں بنے گا تو اس سے وسائل میں تیزی سے کمی آئے گی۔ آج مغرب اپنے نظام کی وجہ سے افرادی قوت کے بحران کے قریب کھڑا ہے اور کسی وقت بھی ایک انسانی بحران پیدا ہوجائے گا جس کی فکر اب اہل مغرب کے اہل دانش کو کھائے جارہی ہے اب وہاں آبادی میں اضافے کی تدابیر سے زیادہ اقدامات کیے جارہے ہیں لوگوں کو زیادہ بچوں کی پیدائش پر انعامات دیے جارہے ہیں اور بچوں کی پیدائش سے لے کر تعلیم اور علاج تک کے اخراجات حکومتیں برداشت کررہی ہیں۔ مگر جو سوچ معاشرے کا چلن بن جائے وہ پھر برسوں کے بعد بھی مشکل سے ختم ہوتا ہے چونکہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ نظام کا حصّہ بن جاتا ہے اور مغرب میں اب یہ چلن نظام کا حصّہ ہے کہ شادی کی ذمے داری کیوں لیں اور اس کے بعد بچوں کی پروش کی ذمے داری کیوں اٹھائیں بس جب تک دل چاہے مرد عورت ایک ساتھ رہیں اور جب دل بھر جائے اپنی اپنی راہ لیں لیکن ایک دن یہی انسان بوڑھا ہوگا اور پھر یہ دونوں دنیا سے رخصت ہوں گے تو یہ اپنے بعد دنیا میں انسان کی صورت میں کیا دے کر جائیں گے۔ اس طرح تو نوع انسانی بجائے نشونما پانے کے سکڑتی چلی جائے گی۔ دنیا کو بنانے اور اس کو سنوارنے کے لیے انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ دنیا انسانوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ صدیوں پہلے مغرب اپنے مذہب سے دامن چھڑا چکا ہے اب ان کی تہذیب کی گاڑی تیزی سے اپنی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے اور کسی وقت بھی حادثے سے دوچار ہوجائے گی۔
سیدنا نوحؑ نے صدیوں اپنی قوم میں دعوت و اصلاح کا کام کیا مگر قوم اپنی روش سے باز نہ آئی تو اللہ تعالیٰ نے سیدنا نوحؑ کی قوم کے سامنے اپنے پیارے نبی سیدنا نوحؑ سے ایک مطالبہ رکھوایا کہ: ’’اور میں نے کہا کہ، اپنے ربّ سے معافی مانگو کہ وہ بے شک معاف کرنے والا ہے۔ وہ آسمان سے بارش برسائے گا اور مال سے نوازے گا اور تمہیں بیٹوں سے نوازے گا اور تمہارے لیے باغ پید ا کرے گا، تمہارے لیے نہریں جاری کرے گا‘‘۔
اس آیت میں سب سے پہلا کام یہ کہا کہ اپنے ربّ سے معافی مانگو دوسری ربّ کی سب سے پیاری صفت بندوں کی لیے بتائی کہ وہ معاف کرنے والا ہے اور اس کے بعد یہ بات فرمائی کہ وہ جب خوش ہوگا تو آسمان سے بروقت بارش برسائے گا تیسری بات یہ فرمائی کہ وہ مال سے نوازے گا چوتھی بات یہ فرمائی کہ اولاد نرینہ عطا فرمائے گا باغ پیدا فرمائے گا اور نہریں جاری کردے گا۔ یہ ہے دنیا کے مسائل اور ان کا حل آج مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی نہیں ہے بلکہ مسئلہ ہے معافی توبہ کرنے کا اور اپنے ربّ کی طرف پلٹنے کا۔ آج عوام اور حکومت دونوں پلٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حکومت اور عوام نے وہ کام اپنے ذمّے لے لیے ہیں جو اللہ کے کرنے کے ہیں اور وہ تمام کام اللہ کے ذمے ڈال دیے ہیں جو عوام اور حکومت کے کرنے کے ہیں۔
جناب صدر صاحب آپ تو مطالعے کے شوقین ہیں سیدنا عمر کا وہ واقعہ پڑھا ہی ہوگا کہ قحط کے زمانے میں جہاں بہت سے اقدامات کیے وہاں سیدنا عمرؓ نے لوگوں سے کثرت سے استغفار کرنے کی تلقین کی۔
اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ وسائل میں اضافے کا راز اللہ سے توبہ و استغفار میں مضمر ہے اور وسائل کی کمی آبادی میں اضافہ کی وجہ سے نہیں، بلکہ اللہ کی ناراضی کی وجہ سے ہے، مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ربّ کائنات پر ایمان نہیں لایا اس بات کا ادراک نہیں اور حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ رب کائنات پر ایمان بھی رکھتی اور ربّ کی مانتی بھی نہیں ہے اور اس بات کا اچھی طرح ادار ک بھی ہے۔ یاد رہے کہ پر نالہ ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف گرتا ہے۔ جس فحاشی، عریانی اور منشیات کے کلچر کو آپ سرکاری سرپرستی میں معاشرے میں فروغ دے رہے ہیں اس سے تو تولیدی صحت ہے آپ کو احساس ہے کہ معاشرے کا سب سے قیمتی حصّہ اس کلچر سے متاثر ہورہا ہے وہ پاکستان کا نوجوان طبقہ ہے مغرب تو اب بوڑھا ہوچکا ہے وہاں نوجوان تو کیا جوان بھی معاشرے میں اقلیت بن چکے ہیں مگر ہمارے یہاں تو نوجوان معاشرے کی اکثریت ہیں۔ مگر بدقسمتی سے گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے کے مصداق حکومت کی تمام پالیسیاں معاشرے کے نوجوان کے ساتھ دشمنی پر مبنی ہیں۔
قوم کو آپ کا وہ بیان بھی یاد ہے کہ جب ملک میں آٹے کا بحران پیدا ہوا تو صحافی نے سوال کے دوران آٹے کے بحران کا ذکر کیا تو آپ نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ ملک میں آٹے کا بحران ہے مگر مجھے معلوم ہونا چاہیے تھا جیسے اس وقت آٹے کے بحران سے آپ لاعلم تھے اسی طرح آج بھی آپ بہت سارے ملک کے مسائل کے بارے میں لاعلم ہیں اور نہ ہی آپ کو ان کو جاننے میں دلچسپی ہے۔ ہر انسان کے لیے اللہ کی کتاب ایک آئینہ ہے آپ خود ہی فیصلہ کرلیں کہ آپ کی دوڑ دھوپ کن مقاصد کے حصول کے لیے ہے۔