اعلان برات کا وقت

503

کھیل بہترین سفارت کاری کر سکتے ہیں۔ ان کے ذریعے آپ اپنا لبرل چہرہ بھی پیش کر سکتے ہیں اور یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ آپ دین برحق کے پیروکار ہیں۔ اس کا بہترین مظاہرہ قطر نے فٹ بال کے میگا ایونٹ میں کر کے دنیا کو مسحور کر دیا۔ 20 روز تک اسلام اور شعائر اسلام کے روح پرور مظاہرے۔ اسلام کا چہرہ پیش کرنے کا اپنی نوعیت کا یہ غالباً پہلا اور منفرد انداز تھا۔ جس نے دیگر مسلم ریاستوں کو یہ پیغام دیا کہ کھیل اگر چہ کھیل ہیں مگر ایک باوقار مسلم قوم ہونا اس سے بھی بڑا فخر ہے۔ جس کا اظہار ہونا کھیلوں کے میگا ایونٹ کے انعقاد سے کہیں زیادہ بڑی سعادت ہے جو ہرایک کے نصیب میں نہیں آسکتی۔ آفاقی پیغام کی ببانگ دہل نمائندگی۔ واہ سلامت رہو قطر۔
دوسرے الفاظ میں اس بات کا اعلان کہ رحمان کے بندے ہیں یا ان شیاطین کے آڑی ہیں جو فحاشی اور عریانی کے نئے نئے سیگمنٹ لا کر پورے عالم میں اپنے مذموم عزائم کے ساتھ سرگرم ہیں۔ ابھی ہم پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب میں مچائے جانے والی ہلڑ بازی جس کے ذریعے دنیا کو اپنا روشن رخ دکھانے کی کوشش کی گئی پر ہی کف افسوس مل رہے تھے کہ وہ جو بے حیائی کی تشہیر کو اپنا ایجنڈا بنائے بیٹھے ہیں کامسیٹس میں وار کر بیٹھے۔
واضح رہے کہ اسلام وہ طریقہ حیات ہے جو گھر کے معاملات سے لے کر ریاستی امورتک پر حاوی ہے خاندانی استحکام کسی بھی مسلم معاشرے کا حسن ہے خاندانی نظام کے حوالے سے اسلامی تعلیمات واضح ہیں۔ مرد اور عورت کے مابین نکاح جیسے مقدس رشتے کے ذریعے خاندان وجود میں آتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں خاندان کی مضبوطی اتنی مطلوب ہے کہ قرآن کریم میں گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک کی بارہا تاکید کی گئی ہے۔ شوہروں کو بیویوں کی خامیوں کے بجائے خوبیوں پر نظر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تو دوسری جانب بہترین بیوی اُسے قرار دیا گیا ہے جو اطاعت گزار اور شکر گزار ہو۔ حدیث نبوی میں فرمان ملتا ہے کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو گھر والوں کے لیے بہترین ہے نیک بیوی کو بہترین متاع اور طلاق کو ناپسندیدہ امور کا درجہ دیا گیا ہے۔ ان احکامات کے نتیجے میں ایک پائیدار اور ایک دوسرے کے ساتھ مخلص افراد پر مشتمل اولًا خاندان اور دوم معاشرہ قائم کرنا مطلوب ہے اسلام حقوق وفرائض کے بندھن میں بندھا ہوا ایک مضبوط خاندان دیکھنا چاہتا ہے۔
مگر ابلیس اور اس کے چیلے اپنی راہ پر گامزن ہیں۔ ہر محاذ پر اسلام کے بالمقابل۔ اگر اسلام ایک مردو عورت کے مقدس بندھن کو خاندان کی اکائی قرار دیتا اور دیگر تمام تعلقات کی نفی کرتا ہے تو ابلیس اور اس کے چیلے کہتے ہیں کہ شادی تومرد کی مرد سے اور عورت کی عورت سے بھی ہو سکتی ہے۔ زندگی تو بغیر نکاح کے بھی کسی لائف پارٹنر کے ساتھ گزاری جا سکتی ہے اور جب چاہیں لائف پارٹنر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ بہت سارے مرد اور عورتیں مل کر ایک چھت تلے خاندان کی طرح رہ سکتے اور تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ قدرت نے لڑکا بنایا ہو یا لڑکی بڑا ہونے پر وہ ازخود یہ فیصلہ کرنے کا مجاز ہے کہ وہ لڑکا بننا پسند کرے گا یا لڑکی۔ یعنی تخلیق باری تعالیٰ کے ساتھ کھلواڑ۔ اب کامسیٹس کا متنازع پیپر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے بھائی اور بہن جیسے مقدس رشتے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان تمام فحش نظریات و اقدامات کا اصل ہدف خاندان جیسا محترم ادارہ ہے جس کی مستحکم تنظیم دراصل معاشرے کے امن سکون کا باعث ہے۔ آج مغربی دنیا میں خاندان کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ وہ کر بھی کیا سکتے ہیں ان کے پاس ایسا کوئی طریقہ حیات نہیں جس کے دامن میں وہ اپنی معاشرت کو درست کر سکیں۔ مگر تف ہے ان نادان مسلمانوں پر جو ابلیس کے پیروکار بن کر اسلامی دنیا میں فحاشی ور عریانی کے آلہ کار بن گئے ہیں اور واہیات نظریات کے ذریعے غضب الٰہی کو بھڑکا رہے ہیں۔
ایک طرف دیوالیہ ہوتا ہوا ملک، خود کشیوں پر مجبور عوام اور بے ضمیر حکمران اور ان سب کے ساتھ ساتھ فحاشی اور عریانی کی تشہیر کے ذریعے خاندان جیسے ادارے کا تباہ دکھائی دیتا مستقبل۔ کیا ایسی قوم کو جو پہلے ہی تباہی کے دہانے سے چند گز دور کھڑی ہے ایسے مظاہر اور مناظر زیب دیتے ہیں؟؟
وہ حکمران جو دن میں کئی بار پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی ہولناک خبریں دے رہے ہیں ٹیکسوں اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے سے پریشان عوام کو سادگی اپنانے اور مزید قربانیوں کے لیے تیار رہنے کی تلقین کر رہے ہیں ان حالات میں پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب میں سادگی کا مظاہرہ کرنے کا فرمان جاری نہیں کرسکتے تھے۔ ناچ گانوں اور ہلڑ بازی کے ذریعے کامسیٹس یونیورسٹی جیسے واقعات کے ذریعے دنیا کو اپنے سوفٹ امیج کا پیغام تو دے رہے ہیں مگر غضب الٰہی کو بھڑکایا جا رہا ہے۔ اعلان کیا جا رہا ہے کہ فحش کی تشہیر میں ہم شیطان کی پارٹی کے ساتھ ہیں۔ وہ فحش جس کے بارے میں ارشاد باری ہے۔ ’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں سخت عذاب کے مستحق ہیں‘‘۔
معاشری ابتری کے اس دور میں کیا بحیثیت ایک کلمہ گو قوم ہمیں نہیں سوچنا چاہیے کہ ایسی سرگرمیاں اور نظریات ایک اسلامی معاشرے میں پھلنے پھولنے کی اجازت ہر گز نہیں ہونی چاہیے۔
سوچیے ،روکیے، اعلان برات کیجیے۔
خیر کے دست وبازو بن جائیے… فحاشی اور عریانی کے اقدامات سے اظہار نفرت وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
شاید اسی طرح ہماری ڈوبتی ہوئی نیا کو منجھدار مل جائے۔
معاشی زبوں حالی کے اس دور میں ایسا محسوس ہوتا ے کہ قرآن ہم سے مخاطب ہے۔’’اگر بستی والے ایمان اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے توہم ان کے لیے آسمان اورزمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے‘‘۔ (سورہ اعراف)