ہماری آج کی معیشت اور پچھتر سال

641

اپنی 75 سالہ تاریخ میں ہم نے جس طور اس ارضِ پاک کو برباد کیا اب اس پہ کسی طور بھی ملمع نہیں چڑھایا جاسکتا۔ بھارت بے شک ہمارا برا ہمسایہ ہے، مگر سوال تو یہ ہے کہ آخر اس کی معیشت اس بری طرح برباد کیوں نہیں ہوئی جبکہ دونوں کے جغرافیائی اور تاریخی حالات ایک جیسے تھے۔ کیوں آج ان کے ہاں امریکی ڈالر ان کے 82 روپے میں دستیاب ہے اور ہمارے ہاں وہی ڈالر 276 روپے میں بھی نہیںمل رہا۔ ڈالر لینے کے لیے ہمیں بلیک مارکیٹ جسے ہم عرف عام میں اوپن مارکیٹ کہتے ہیں، کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔ وہاں امریکی ڈالر 290 میں بھی بمشکل ملتا ہے۔ ذرا ہمارے سیاستدانوں اور ناصحوں کی باتیں تو سنیں ۔ وہ ہمیں فردا کے خواب دکھانے سے نہیں تھکتے۔ بے شک ایٹمی طاقت بننا ہماری انتہائی ضرورت تھی، ہے اور رہے گی لیکن کیا ہمیں زیب دیتا ہے کہ ہم اپنی نالائقیوں کو بھلا کر اس بات پہ بغلیں بچاتے پھریں کہ ہمیں کسی بات کی پروا نہیں، ہم تو ایٹمی طاقت ہیں؟ 75 سال میں معاشی طور پر ہم اگر اپنے پائوں پرکھڑے ہوگئے ہوتے تو آج آئی ایم ایف کا وفد پاکستان میں بیٹھ کر حکمران اشرافیہ کو ڈکٹیٹ نہ کر رہا ہوتا۔ 2 فی صد اشرافیہ نے ہمارے ملک کا وقار خاک میں ملادیا ہے۔ ہمارے گرین پاسپورٹ کی دنیا میں جو توقیر ہے وہ ہم سب کو معلوم ہے مگر ہماری اشرافیہ اس غریب ملک سے روپیہ چھین چھین کر مغربی ممالک میں جائدادیں خریدنے میں جتا ہوا ہے۔
یہ جب حکومتی وفد کے طور پر بیرونی ممالک کا دورہ کرتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں لاکھوں روپے کی مالیت کے پرس ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کی شادیوں پہ کروڑوں روپے خرچ کر ڈالتے ہیں۔ بظاہر تو حزبِ اقتدار اور حزب اختلاف میں ہوتے ہیں مگر ایک دوسرے کے ہاں کی شادیوں میں ایک میز پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیتے نہیں تھکتے۔ کیا انہیں ان کی مذموم حرکتوں کی بنا پر جیل میں ڈالا جاسکتا ہے؟ ایسا ہو بھی جائے تو یہ آسانی سے اسپتالوں میں پناہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ جس دم یہ ایک میز پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہوتے ہیں تو باہر سڑکوں پر عوام ان کی محبت میں الجھ کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ عوام یہ نہیں دیکھتے اور نہ ہی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ تو ان میں سے ہیں ہی نہیں۔ یہ تو مغربی ممالک کے باسی ہوچکے ہیں۔ یہاں سے تو یہ صرف پیسہ سمیٹنے کی غرض سے آتے ہیں۔ برطانیہ جیسے ملک جس کا وزیراعظم بھی ٹرین میں کھڑا ہوکر سفر کررہا ہوتا ہے، یہ گاڑیوں کا جلوس لے کر نکلتے ہیں اور ہمارے مفلس عوام کی خوشی کا یہ معیار طے ہوچکا ہے کہ اس کی پارٹی کا امیدوار جیت گیا ہے۔ اس کا بیٹا اگر اسکول میں فیل ہوگیا ہے تو کیا ہوا؟ اگلے سال سہی، اور اگلے سال بھی نہ سہی تو اس سے اگلے سال تو شاید پاس ہو ہی جائے گا۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
پھر یہی نہیں، ہمارے سرکاری قلم کاروں نے جھوٹی خود داری کے اتنے رونے روئے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ مثلاً ہمارے بڑے بابو قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ میں رقم طراز ہیں کہ قیام پاکستان کے شروع کے ایام میں ہم اس قدر تنگ دست تھے کہ کاغذات کو اسٹیپل کرنے کے لیے ہم کامن پن تک نہیں خرید سکتے تھے۔ کیکر کے کانٹوں سے کام لیا جاتا تھا۔ تو ان بڑے بابو صاحب سے کسی نے نہیں پوچھا تو حضور کیا اس وقت کے سربراہِ مملکت اور دیگر عملے کے پاس جو گاڑیاں تھیں تو ان کا پٹرول کیسے خریدا جاتا تھا؟ یہ رہے ہیں ان بابوئوں کے خود داریوں کے معیار۔ اگر انہوں نے واقعی کیکر کے کانٹوں سے کامن پن کا کام لینا تھا تو اسے ان کی نالائقی تو کہا جاسکتا ہے خود داری ہرگز نہیں۔ جنرل ایوب جن کی تعریف میں ان بڑے بابو صاحب نے صفحوں کے صفحے کالے کردیے ہیں یہ نہیں بتایا کہ جنرل ایوب نے 1965ء کے انتخابات میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ انہیں کس کس طرح کے القابات سے نوازا تھا؟ صدر ایوب نے جو مارشل لا کی مثال قائم کی تو مارشل لا اس ملک کی تقدیر بن گیا۔ ایسے میں عوام کی خوشی کا معیار کیا رہا؟ وہ یہ کہ جب کبھی مارشل لا لگا تو انہوں نے خوشی منائی اور پھر جب مارشل لا اٹھا تو بھی انہوں نے خوشی منائی۔ ہاں ایک بات ہے کہ یہاں کچھ ایسے امور بھی سرانجام پائے ہیں جو فخر کا باعث رہے ہیں۔ کراچی میں ہماری اسٹیل مل نے معیشت کو ایک وقت بہت سہارا دیا۔ ہماری پی آئی اے کی سروس نے مشرق وسطیٰ کی فضائی کمپنیوں کو اڑنا سکھایا۔ مگر اب؟ اب یہ دونوں بڑے ادارے سفید ہاتھیوں کی مانند ہوچکے ہیں۔ ان دونوں کے خسارے اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ انہوں نے ہماری معیشت کے ہاتھ زمین پر لگوادیے ہیں۔ یہ اس چھپکلی کی مانند ہوچکے ہیں جسے نہ نگلا جاسکتا ہے، نہ اُگلا جاسکتا ہے۔ یہ ادارے، یہ اشرافیہ، یہ سیاستدان اور یہ افسر شاہی ہماری معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ ہمارے ایک وزیر ہوا بازی بیان دیتے ہیں کہ پی آئی اے کے پائلٹس اپنی جاب کے لیے کوالیفائی نہیں کرتے۔ سب ہی بیرونی ممالک نے یہ خبر اچک لی اور یوں کئی ممالک نے پی آئی اے پہ پابندی عائد کردی۔ لیکن کیا ان وزیر صاحب کو کسی قسم کی سزا ہوئی؟ نہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنی پارٹی کے سربراہ کی تعریفوں کے قلابے ملاتے ہوئے تھے۔ ملک کا اتنا بڑا نقصان ہوگیا، پارٹی چیئرمین نے یہ تاثر دیا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
کہاں تک لکھوں؟ معیشت کی تباہی اس طور بے کراں پھیلی ہوئی ہے کہ اسے سمیٹ کر چینلائز کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ آج جب ہمارا وطن ڈیفالٹ ہونے کے کنارے پہنچ چکا ہے، ہم کشکول لیے آئی ایم ایف کے سامنے کھڑے ہیں کہ خدا را اتنا قرض دے دو کہ ہمارے چند مہینے تو کٹ جائیں۔