انقلاب ایران کی 44ویں سالگرہ

595

پاکستان کے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلاب کی44 ویں سالگرہ پر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کو پاکستان کی حکومت اور عوام کی جانب سے بھیجے جانے والے مبارکباد کے پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان برادرانہ تعلقات لسانی، ثقافتی اور مذہبی بنیادوں پر استوار ہیں۔ پاکستان دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں میں ان روابط کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ صدر مملکت نے رہبر انقلاب کی صحت ودرازی عمر اور اسلامی جمہوریہ ایران کے عوام کی ترقی، خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا۔ پاک ایران تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات دونوں برادر ممالک کے لیے قابل فخر ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں سے پاکستان ایران کا پہلا پڑوسی اور مسلم ملک تھا جس نے 1979میں ایران کے اسلامی انقلاب کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ امام خمینی کی قیادت میں شہنشاہ ایران کو معذول کرکے آنے والے عوامی اسلامی انقلاب کا خیرمقدم بھی کیا تھا۔ اسی طرح ایران بھی دنیا کا وہ پہلا ملک تھا جس نے 1947 میں پاکستان کی آزادی کو نہ صرف سب سے پہلے تسلیم کیا تھا بلکہ اقوام متحدہ میں پاکستانی رکنیت کی بھرپور وکالت بھی کی تھی۔
واضح رہے کہ ایران میں جب سے امام خمینی کی قیادت میں انقلاب آیا ہے تب سے حکومتوں کے ساتھ ساتھ ایرانی قوم بھی اس دن کو عوامی سطح پر بڑے جوش وخروش اور قومی وملی جذبے کے ساتھ مناتی ہے۔ کسی بھی قوم کا اپنی آزادی کا دن شان وشوکت سے منانا کوئی انہونی اور اجنبی بات نہیں ہے لیکن اس حوالے سے چند برس قبل ہم نے اپنے دورہ ایران کے موقع پر تہران کی گلی کوچوں، سڑکوں اور بازاروں میں اس حوالے سے جوجوش وخروش اور والہانہ جذبہ دیکھا اس کے ہم خود چشم دید گواہ ہیں۔ دراصل چند سال قبل ہمارا یہ دورہ ایک ایسے موقع پر ہورہا تھا جب سارے ملک میں سرکاری اور عوامی سطح پر انقلاب ایران کی چالیس سالہ تقریبات نہ صرف نقطہ عروج پر پہنچ چکی تھیں بلکہ ہمیں ان تقریبات کی سب سے بڑی اور مرکزی تقریب جو یوم انقلاب جسے ایرانی حکومت اور قوم یوم آزادی کے طور پر مناتی ہے جو تہران کے آزادی اسکوائر میں منعقد ہوئی میں بھی شرکت کا موقع ملا تھا۔ اس تقریب میں گودوں میں اٹھائے ہوئے نومولود بچوں سے لیکر ستر اور اسی سال کے بزرگ مرد وخواتین، بچے اور خاص کر نوجوانوں کا جوش وخروش دیدنی تھا۔ اپنی قیام گاہ سے لیکر آزادی اسکوائر تک سارے راستے میں ہمیں نوجوانوں کی ٹولیاں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اور قومی پرچم اٹھائے ہوئے مرکزی میدان تک جاتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ حیران کن بات یہ تھی کہ یہ سب لوگ اپنی مرضی اور خوشی سے آزادی اسکوائرکی جانب رواں دواں تھے۔ ہمارے ہاں عموماً اس طرح کی تقریبات سرکاری نگرانی میں اور سرکاری خرچے پر سرکاری لوگوں کے توسط سے منائی جاتی ہیں جب کہ یہاں پر ہم نے محسوس کیا کہ لوگ اپنی گاڑیوں، پبلک ٹرانسپورٹ، ٹیکسیوں حتیٰ کہ اپنی موٹر بائیکس اور سائیکلوں پر بے خوف وخطر ٹولیوں کی شکل میں طے شدہ مرکز پر بغیرکسی دھکم پیل کے انتہائی منظم انداز میں جمع ہورہے تھے۔ اس دن کو یوں منایا جارہا تھا جیسے ہمارے ہاں عیدین کے دن منائے جاتے ہیں جن میں سب لوگ اپنی مرضی اور خوشی سے عید گاہوں کا رخ کرتے ہیں اور نماز عید کے بعد ہرکوئی ہرکسی سے بلاتکلف عید ملتے ہیں اور ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیتے ہیں۔ اسی طرح یہاں بھی ہوبہو عید کا سماں تھا جو ہمارے لیے یقینا خوشگوار حیرت کا پہلو لیے ہوئے تھا۔ ہزاروں گاڑیوں کے لیے پارکنگ کا اتنا بہترین انتظام کیا گیا تھا کہ ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی کہیں نہ تو بے ہنگم رش نظر آیا اور نہ ہی کوئی دھکم پیل بلکہ سب لوگ کھلی اور کشادہ سڑک پر پہلے یوم آزادی کی پریڈ میں جاتے ہوئے نظر آرہے تھے اور بعد میں جب پریڈ ختم ہوگئی تو تب بھی ہرکوئی شاداں وفرحاں اپنی گاڑیوں کی جانب روان دواں نظر آئے جہاں سے ٹریفک پولیس انتہائی منظم انداز میں ٹریفک کو کنٹرول کر رہی تھی جس کی وجہ سے کسی کو بھی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا تھا۔ اس نظم ضبط اور جوش وخروش کو دیکھ کر ہی ہمیں اندازہ ہوگیا کہ امریکا اور مغرب کی چار دہائیوں کی اقتصادی اور سیاسی وسماجی پابندیوں کے باجود یہ طاغوتی قوتیں اب تک ایران کو کیوں جھکنے پر مجبور نہیں کرسکیں ہیں۔ دراصل جس قوم میں محمود وایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئیں اور حکمرانوں اور عوام میں کوئی حدفاصل نہ ہو اور جہاں کے حکمران خود کو عوام کے حقیقی خادم سمجھیں اور قوم کو یہ یقین ہوجائے کہ اس ملک کی ہرچیز اور ہر فیصلہ ان کے لیے ہے اور وہ اور ان کے حکمران ایک پیج پر ہیں اور ان میں کوئی تفریق نہیں ہے تو پھر وہ معاشرہ حقیقی معنوں میں ایک قوم کی شکل اختیارکرلیتا ہے جسے پھر نہ تو کوئی بیرونی اور اندرونی طاقت شکست دے سکتی ہے اور نہ ہی ملک پر کوئی کڑا وقت آنے پر حکمرانوں اور عوام میں کوئی جدائی اور دوری نظرآتی ہے ایسے حالات میں سب ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر وطن دشمن قوتوں کے عزائم خاک میں ملانے کے لیے کندھے سے کندھا ملاتے ہوئے نظر آتے ہیں جس کی بہترین مثال ایران ہے جس کا انقلاب 44سال گزرنے کے باوجود آج بھی تمام تر مغربی سازشوں کے علی الرغم نہ صرف زندہ وتابندہ ہے بلکہ بلاتفریق جنس وعمر ہر ایرانی امام خمینی کے فرمودات اور ان کی انقلابی قیادت میں ملک وقوم کی ترقی وخوشحالی کے لیے پہلے سے زیادہ پرعزم اور ہمہ وقت تیار اور بیدار ہے۔