سو شہادتیں اور ادویات ناپید

629

حال ہی میں پولیس لائنز پشاور کی مسجد میں نمازِ ظہر کے دوران دہشت گردی کا جو واقعہ پیش آیا اس میں تا دمِ تحریر سو سے زیادہ افراد کی شہادت کی اطلاع تھی جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد زخمی اسپتالوں میں تھے۔ دہشت گردی کا یوں تو ہر واقعہ ہی نہایت قابلِ مذمت ہے مگر نمازیوں پر دہشت گردانہ حملے سے بڑھ کر گھناونا فعل نہیں ہو سکتا۔ یہ واقعہ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کی نئی لہر اور صوبے کی ناقص سیکورٹی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع دہشت گردی کا ہدف بنے ہوئے ہیں جبکہ صوبائی دارالحکومت میں بھی شدت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے مگر ان خطرات کے مقابلے میں صوبائی سطح پر سیکورٹی کے انتظامات کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آسکی۔ دہشت گردی کا حالیہ واقعہ پشاور کے جس مقام پر پیش آیا ہے اس کے بارے عمومی تاثر یہ تھا کہ یہ ایک محفوظ علاقہ ہے جہاں جانے والوں کو چیک پوسٹوں پر مکمل تلاشی کے بعد ہی گزرنے دیا جاتا ہے مگر اس گھناؤنے وقوعے نے پشاور کی سیکورٹی کے انتظامات کی حقیقت واضح کر دی ہے۔ خیبر پختون خوا اور اس سے ملحقہ علاقے دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن سمجھے جاتے ہیں۔ یوں تو پچھلے کئی سال کے دوران ملک بھر میں ایسے اندوہناک وقوعے رونما ہوئے ہیں مگر پشاور دہشت گردی کا سب سے زیادہ ہدف بنا ہے اور وہاں کے سیکورٹی اہلکاروں نے ملک کے دیگر حصوں کے رفقائے کار کی نسبت زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ اس صورتِ حال میں ضروری تھا کہ پشاور کی سیکورٹی کو سنجیدہ اہمیت دی جاتی اور اسے حقیقی معنوں میں مضبوط کرنے کے اقدامات کیے جاتے۔ بد قسمتی سے ایسا نظر نہیں آتا۔
کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ خیبر پختون خوا کی پیشہ ورانہ تیاری آلات اور نفری کے حوالے سے حال ہی میں جاری کی گئی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن صوبے کی یہ ڈھال مسائل کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ رپورٹ میں پنجاب اور خیبر پختون خوا کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ پنجاب جس کے سیکورٹی چیلنجز خیبر پختون خوا کی نسبت کم ہیں کاؤنٹر ٹیررازم کے مقاصد کے لیے خیبر پختون خوا کی نسبت زیادہ اخراجات کر رہا ہے اور تیاری میں بھی خیبر پختون خوا سے کہیں بہتر حالت میں ہے۔ سی ٹی ڈی کی نفری افسران کی تعداد تنخواہیں ہتھیار غرض ہر اعتبار سے خیبر پختون خوا کی تیاری پنجاب کے لیول کی بھی نہیں۔ اس صورتِ حال کے پیش نظر مذکورہ رپورٹ میں سی ٹی ڈی خیبر پختون خوا کی تنظیم ِ نو اور وسائل کی فراہمی اور تربیت کے اقدامات کی سفارش کرتے ہوئے کہا گیا کہ موجودہ وسائل کے ساتھ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے حملوں کو روکنا ممکن نہیں۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر کو تازہ حرکیات کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے؛ تاہم صوبے کی سیکورٹی استعداد کی جانب سے کی جانے والی چشم پوشی کئی سال کی مسلسل غیر سنجیدگی کا ثبوت ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کو اُس صوبے میں مسلسل دو بار حکومت کا موقع ملا اور اگر اس دوران سیکورٹی انتظامات کی بہتری کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا تو تحریک انصاف اس بے عملی کی ذمے داری سے آزاد نہیں ہو سکتی۔ سی ٹی ڈی کی طرح سیف سٹی اتھارٹی کے منصوبے بھی پشاور میں سیکورٹی انتظامات کی بہتری کا ناگزیر حصہ تھے مگر اس اہم ترین منصوبے کو بھی غیر معمولی تاخیر اور تعطل کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت خیبر پختون خوا کی جانب سے پشاور سیف سٹی پروجیکٹ کے لیے کنسلٹنٹ اور آلات کی خریداری کے ماہرین کے لیے مارچ 2020ء میں درخواستیں طلب کی گئیں حالانکہ پشاور کے سیکورٹی خطرات کو دیکھتے ہوئے وہاں سیف سٹی منصوبہ اس سے بھی پہلے مکمل ہونا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے یہ منصوبہ آج تیسرے برس میں بھی خیال و خواب دکھائی دیتا ہے۔ ابھی دو ہفتے پہلے کی ایک خبر کے مطابق پولیس اور ایک نجی کمپنی نے پشاور کے اربن ایریاز میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ کام کب مکمل ہو گا کوئی نہیں جانتا۔ جب سیکورٹی کے خطرات کے مقابلے میں تیاری اور سنجیدگی کا یہ عالم ہو جب دہشت گردی کے خلاف صوبے کی پہلی ڈھال سمجھی جانے والی سی ٹی ڈی کے پاس نہ حسب ِ ضرورت نفری ہو، نہ ہتھیار، نہ تربیت اور نہ ہی مالی وسائل اور دہشت گردی کے خلاف پہلا محاذ سمجھا جانے والا یہ صوبہ دہشت گردی کے درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے انفارمیشن اور کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے جدید وسائل بروئے کار لانے میں تین سال تک محض غور و فکر کرتا رہے تو دہشت گردی کے مقابلے کی اہلیت کیونکر پیدا ہو سکتی ہے؟
خیبر پختون خوا اور ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردی کے ابھرتے ہوئے خطرات ہمارے لیے سبق آموز ہونے چاہئیں۔ یہ صورتِ حال ہماری ماضی کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان کے سیکورٹی اداروں اور عوام نے ماضی میں دہشت گردی کا جس طرح مقابلہ کیا ہے اس سے کئی لحاظ سے ہماری صلاحیتوں میں اضافہ بھی ہوا ہے مگر اس کے باوجود جن امور میں اصلاح کی گنجائش ہے ہمیں ان سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے۔ یہی مضبوط دفاع اور قیامِ امن و سلامتی کا یقینی تقاضا ہے کہ ہم ہر دم اپنے تجربات اور حالات سے سیکھنے کی کوشش کریں اور کمزوریوں کا خاتمہ یقینی بنائیں۔
تاہم افسوس در افسوس تو یہ ہے کہ ان حالات میں جان بچانے والی بیش تر ادویات ملک بھر سے نایاب ہو چکی ہیں۔ گو یا یہی وہ حالات ہیں جن کے با رے میں مرزا غالب نے کہاتھا: روئوں اپنے دل کو یا پیٹوں جگر کو میں۔
ایم آر آئی اور سٹی سکین کے لیے استعمال ہونے والا انجکشن سرجیکل آلات اور دل معدہ جگر اور ذیابیطس کے امراض میں استعمال ہونے والی ادویات نہ ملنے کی وجہ سے مریض اور ان کے لواحقین شدید مشکلات اور پریشانی کا شکار تو تھے ہی، مگر اب تو اس حادثے میں بچ جانے والے زخمی بھی موت کے منہ میں جا نے کو ہیں۔ بہر حال، ادویات کی قلت کی وجہ بظاہر ادویہ سازوں کے پاس خام مال ختم ہونا قرار دی جا رہی ہے لیکن اکثر ڈسٹری بیوٹرز زیادہ منافع کے لیے یہ ادویات بلیک میں مہنگے داموں بیچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ سے حکومت کی طرف سے عائد کی گئی پابندیوں اور ایل سیز نہ کھلنے کے باعث ملک میں ادویات کی قلت کا مسئلہ سر اٹھا رہا تھا اور اب تو یہ سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے لیکن حکومت اس حوالے سے مکمل چشم پوشی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ رواں مالی سال کے دوران اب تک ڈالروں کی قلت کے باوجود 22سو مہنگی گاڑیاں درآمد کی جا چکی ہیں لیکن جان بچانے والی ادویات کا خام مال درآمد نہیں کیا جا سکا۔ عوام پہلے ہی مہنگائی اور بیروز گاری کا شکار ہیں ایسے میں اگر اُنہیں ادویات کی قلت اور علاج معالجے کی ابتر صورتحال کا بھی سامنا کرنا پڑے تو اُن کا پرسانِ حال کون ہوگا؟ ضروری ہے کہ حکومت ادویہ ساز وں کو بروقت خام مال کی فراہمی یقینی بنائے تاکہ مہلک امراض کے شکار افراد کے علاج معالجے میں کوئی تعطل پیدا نہ ہو۔