پاکستان میں تعلیمی نظام کی تعمیر نو

667

باحیثیت ترقی پزیر ملک، پاکستان میں تعلیم اور تعلیمی نظام کو بہت سی رکاؤٹوں کا سامنا ہے جس میں غربت، بے روزگاری، دہشت گردی، اور ناخواندگی بڑے مسائل ہیں۔ جو ملک میں بچوں کی تعلیم کی کمی کا باعث بنتے ہیں۔ بحیثیت ترقی پزیر ملک، پاکستان کو مستقبل میں آنے والی نسلوں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے بنیادی مہارتوں کی ضرورت ہے۔ اگرچہ حکومت نے اس نظام کی بہتری کے لیے کئی تبدیلیوں کی کوشش کی ہے مگر اصلاحات کو ہمیشہ مالی رکاوٹ کا سامنا رہا ہے۔ حکومت نے بھی اپنی رقم دوسری جگہوں پر مختص کر دینے کو ترجیح دی ہے کیونکہ وہ بچوں کی تعلیم سے زیادہ ان کو ترجیح دینا بہتر سمجھتے ہیں۔ اگرچہ 2030 تک پاکستان میں خواندگی کی شرح 100 فی صد ہونے کی توقع ہے جبکہ اس کے بر عکس یہ رفتار بہت سست ہے۔ 2020، اور 2021 میں تقریباً 62.8 فی صد خواندگی کی شرح بتائی گئی جو شایددرست نہیں۔ یہ 2018-19 کی رپورٹ کے مقابلے میں صرف 0.4 فی صد اضافہ تھا۔ پاکستان میں تعلیم چھوڑنے والوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔ اچھے تربیت یافتہ اساتذہ سے محروم ہونے کی وجہ سے بچوں میں سیکھنے اور تعلیم حاصل کرنے کا رجحان کم ہے، جو ان کو یہ فیصلہ لینے میں مجبور کرتا ہے کہ وہ کم عمری میں تعلیم چھوڑ کر کام کرنا شروع کردیں۔ جو ان کے اپنے لیے اور ان کے خاندان کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوگا۔ یہاں تک کہ زیادہ تر بچے پرائمری تعلیم سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ لڑکوں کی شرح خواندگی کی تعداد لڑکیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ کووڈ-19 نے تعلیمی نظام پر بھی اثر ڈالا ہے جس کی وجہ سے کافی بچے تعلیم سے محروم رہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، سیاست دان اکثر تعلیم کے بجائے دوسرے مسائل اور چیلنجز کو پہلے ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستانی حکومت کو اب تعلیمی نظام کے مسئلے کو ہنگامی طور پر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا مستقبل نوجوان نسلوں کے ہاتھوں میں ہے، سیاستدانوں کو اس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاست دانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے
کہ حکومت میں ان کے عہدے بالآخر نوجوان نسل کو منتقل ہونے ہیں۔ پاکستان کی مکمل ترقی کے لیے حکومتی عہدوں پر ایسے لوگوں کا بھرتی ہونا ضروری ہے جو خاصے تعلیم یافتہ ہوں۔ اسی طرح اگر ملک کے صرف امیر طبقے کے بچوں کوتعلیم دی گئی تو بغیر کسی ترقی اور کامیابی کے پھر وہی غلطیاں بار بار ہوتی رہیں گی۔ چھوٹی عمر سے بچوں کو تعلیم دینے سے نہ صرف ان کی اچھی پرورش ہوگی بلکہ پاکستان کے حالات بھی بہترہوں گے، مزید لوگوں کا ایک اچھا گروپ بھی بنے گا جو علمی، جذباتی، جسمانی، ذہنی اور سماجی مہارتوں کو بروئے کار لاکر ملک کے لیے مناسب فیصلے کرے گا۔ اسکول میں سیکھے جانے والے علم سے بچے اپنی عملی زندگی میں بھی مستفید ہوں گے اور اسے اپنے والدین کے ساتھ بھی بانٹے گے۔ تعلیم یافتہ نوجوان ان تمام مسائل کا حل ہے جن کا سامنا پاکستان کررہا ہے۔ اسکول کی تعداد اور اس کے بنیادی نظام، طالب علموں کے لیے سہولتیں اور اس کے ساتھ ساتھ محفوظ نقل و حمل پر حکومت کو وقت اور پیسہ لگانے کی ضرورت ہے۔ اگر اسکول اور ٹرانسپورٹ کے حالات بہتر ہوتے ہیں تو اس سے والدین کو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے میں بھی سہولت ملے گی اور اسکول چھوڑنے کی شرح میں کمی آئے گی۔ تعلیم کے معیار پر اور بھی بات ہونی چاہیے کیونکہ تعلیم معاشرے کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔
حکومت کو لڑکوں اور لڑکیوں، دونوں کے لیے یکساں اور بہتر بنیادی نصاب مرتب کرنا چاہیے۔ بچوں کو کام میں ڈالے جانے سے پہلے بنیادی تعلیم دینے کی ضرورت ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔ پرائمری اسکول میں بچوں کو جو نشو نما ہوتی ہے وہ مستقبل میں ان کے لیے عالمی مارکیٹ میں بھی مواقع پیدا کرے گی۔ تعلیمی نظام کی ناکامی کی وجہ سے تربیت یافتہ اساتذہ کی بھی کمی ہے۔ ارلی لرننگ پارٹنر شپ جیسے منصوبے ورلڈ بینک کی مالی معاونت سے اسکول کے اساتذہ کے لیے پیشہ ورانہ ترقی کے لیے کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ گھوسٹ اساتذہ کا مسئلہ کمیونٹی بیسڈ اسکول بنا کر حل کیا جا سکتا ہے جہاں طالب علموں کا خاندان خود اس نظام کا حصہ بن سکے۔ جیسا کہ پاکستان ایک سے زیادہ زبانیں بولنے اور برادری رکھنے والا ملک ہے جس کی وجہ سے طالب علموں کو سیکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اساتذہ جو کچھ پڑھاتے ہیں، وہ ان کی مادری زبان میں نہیں ہوتا۔ ماہر تعلیم کا کہنا ہے کہ اردو اور انگریزی پڑھانے سے پہلے، ان کو اسی زبان میں سکھایا جانا چاہیے جو وہ گھر میں بولتے ہیں تاکہ بچوں کے لیے آسان ماحول پیدا کیا جا سکے چونکہ انگریزی یا تو بہت سے بچوں کے لیے دوسری یا تیسری زبان ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشن ڈویلپمنٹ کے مطابق، 90فی صد سے زیادہ طلبہ کے پاس سائنس اور ریاضی کی بہت کم یا بنیادی سمجھ اور علم ہے جس کی وجہ سے طلبہ نے صرف وہ معلومات حاصل کیں جو انہیں سیکھنی چاہیے تھیں۔ اسکالرز نے اپنے مطالعے سے یہ بھی دریافت کیا ہے کہ طلبہ کو ایک ساتھ متعدد زبانیں سکھانے کے بجائے، ایک ایسی کلاس روم میں پڑھانا چاہیے جس میں صرف ایک ہی زبان استعمال ہوتی ہے کیونکہ ایسی کلاس میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔
دور حاضر میں استعمال ہونے والی درسی کتابوں اور کہانیوں کی کتابوں کے مواد میں بھی کئی مسائل ہیں۔ ان کے بہت سے اسباق لڑکیوں اور خواتین کے بہت محدود کردار پیش کرتے ہیں۔ بہت سی نوجوان لڑکیوں کو یہ یقین کرنے کی ترغیب دی ہے کہ معاشرے میں ان کا کوئی اہم مقام نہیں ہے۔ اساتذہ کو بھی تربیت دی جانی چاہیے کہ وہ جنس کی بنیاد پر کسی قسم کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کا اظہار نہ کریں۔
معیاری تعلیم ہی بہتر صحت کا باعث بنتی ہے، صحت کے بارے میں درست معلومات دیتی ہے جس کے نتیجے میں طرز زندگی کے بہترین فیصلے بھی آسانی سے کرسکتے ہیں۔ یہ والدین کو اپنے بچوں کے لیے بہتر فیصلے لینے میں بھی مدد دیتی ہے۔ زیادہ تعلیم کے حامل افراد صحت کے بعض خطرات سے اچھی طرح و اقف ہوتے ہیں۔ یہ ناصرف اپنے خاندان کے بارے میں بلکہ پورے معاشرے کے بارے میں سوچتے ہیں۔
مجموعی طور پر پاکستان میں پرائمری سطح کی تعلیم سے شروع ہونے والے تعلیمی نظام کو مکمل طور پر تبدیل اور جدید کرنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ، کلاس روم، درسی کتابیں، اور واحد نصاب کے معیار میں بہتری ملک کے لیے اچھی ثابت ہو سکتی ہے۔ طلبہ کو تعلیم کی اہمیت اور ملک میں جن مسائل کا سامنا ہے ان سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جب وہ بڑے ہو جائیں تو ملک وقوم کی ترقی میں کردار ادا کر سکیں۔ پرائمری سطح پر بچوں کو بین الاقوامی طرز کی تعلیم فراہم کی جائے کیونکہ نوجوان نسل ہی پاکستان کا مستقبل ہے اور تعلیم کے بغیرکوئی ترقی حاصل کرنا ممکن نہیں۔