غربت: ملک میں بڑھتی اموات

474

کئی دن ہوگئے میرا دل دکھی ہے میں نے کئی بار لکھنے کا سوچا! لیکن جب ان واقعات کو ذہین میں لاتا ہوں بے اختیار آنسو نکل جاتے، پریشان ہوجاتا اور قلم میرا ساتھ نہیں دیتا۔ اتفاق سے گزشتہ دنوں ہمارے پروفیسر عتیق الرحمن نے ہمیں غربت کا موضوع دیا، میں گھر پر اس کی تیاری کر رہا تھا اور اس پر جب رات لکھنے بیٹھا تو اپنی تحریر آنسوں کے ساتھ شروع کی، اس دوان میں نے مشفق کالم نگار عمران احمد سلفی کو فون کیا اور ان سے اپنی تحریر کا خیال ظاہر کیا انہوں نے بہت حوصلہ دیا اور کہا تم لکھوں اس سلسلے میں مکمل تعاون کروں گا۔ مجھے ہمت ملی یہ میری زندگی کی پہلی تحریر ہے۔
آج پاکستان جن حالت سے دو چار ہے اور معاشی بد حالی طرف جس تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس کو یہاں تک پہنچانے والے بھی ہمارے ہی حکمران ہیں ان کی ناقص پالیسیاں، سودی نظام، کرپشن، غبن اور بیرون ملک دولت کی منتقلی کی وجہ سے غربت میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یاد رہے غربت معاشرے کو طاقت کی غیر مساوی تقسیم میں ڈالتی ہے اور کردار میں تنائو اور کمزوری جیسے حالات پیدا کرتی ہے، یہ تمام حالات غیر صحت مند طرز زندگی کی موافقت کا باعث بنتا ہے اور براہِ راست انسانوں کی ذہنی یا جسمانی صحت پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔
غربت سماجی تنائو کی ایک بڑی وجہ ہے اور عدم مساوات خاص طور پر آمدنی میں عدم مساوات کی وجہ سے کسی قوم کو تقسیم کرنے خطرہ ہے ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کسی ملک میں دولت پر ایک طبقہ کا قبضہ ہو امیر امیر تر ہو رہا ہو اور غریب غریب تر ہو رہا ہو اور لوگ محرومیوں کا شکار ہوں غربت خاندانوں پر ایک اضافی دباؤ ڈالتی ہے بالخصوص والدین کی ذہنی صحت اور رشتے کے مسائل اور مادے کے غلط استعمال کا باعث بن سکتی ہے جو والدین کے رویوں پر منفی اثر ڈال سکتا ہے، بچوں کے نتائج کو متاثر کرتا ہے۔ غربت کی وجہ سے قوم کے تقسیم ہونے کا خطرہ ہے جو ملک وقوم کے لیے بہت بڑا چیلنج بن جائے گا۔ نئی نسل کو صحت، تعلیم و تربیت، روزگار نہ ملنے کی صورت میں ہم اپنے ہی ملک میں ایک خوف ناک جنگ کی طرف جا رہے ہیں گزشتہ حکومت نے تعلیم۔ صحت۔ کارڈ کا اجرا کیا تھا جو بہت مناسب اقدام تھا امید تھی کہ پاکستان جلد اپنے شہریوں کو بہترین سہولتیں فراہم کرے گا لیکن ایک بار پھر روزگار، بجلی، گیس، پانی جیسے مسائل ٹراسپورٹ کی سہولتوں سے محروم کردیا گیا۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں تعلیمی اداروں کا خاتمہ اور اضافی فیسوں کی وصولی کی وجہ سے ایک بہت بڑی تعداد نوجوانوں کی تعلیم سے محروم ہوگئی ہے۔
آج لوگ اتنے پریشان ہیں بیان کرنا مشکل ہے جبکہ کورونا کے وقت میں پوری دنیا بند تھی لیکن یہ حالات نہیں تھے 10ماہ میں 7لاکھ لوگوں نے ملک چھوڑ دیا اور کتنے لوگ ملک سے جانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ کراچی سمیت فیصل آباد، گجرانوالہ، پشاور، کوئٹہ میں فیکٹریاں بند ہورہی ہیں ملک تباہی کی طرف جارہا ہے، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں یونیورسٹی کے کئی جوان بچوں کو قتل کردیا گیا ان کے والدین پر کیا گزری حکومت نے کیا اقدام کیے سیلاب زدگان آج بھی آمداد کے منتظر ہیں سردیوں اور بارشوں کا سلسلہ جاری ہے سیلاب متاثرین کے نام پر دنیا سے آمداد جمع کرنے کے مشن پر وزیراعظم اور وزیر خارجہ نکلے ہوئے ہیں۔
جس وجہ سے میں نے یہ تحریر لکھنے کی جسارت کی اس طرف آتا ہوں کراچی سے ڈاکٹر آفندی صاحب کی تحریر نے آج رُلا دیا کہ ایک نوجوان کئی دن سے بے روز گا تھا اس کی بہنیں دو دن سے بھوکی تھیں کئی دن بعد اس کو کام ملا وہ اپنی دہاڑی کے پیسے لیکر واپس آرہا تھا جو6سورپے تھے اور ایک تیرہ سو روپے تک کا موبائل تھا جو ڈکیتوں نے چھینا چھا اس کو اپنی بھوکی بہنوں کا خیال آیا اس نے مزاحمت کی زخمی ہوگیا ڈاکٹر صاحب اس کے آپریشن کی تیاری کر رہے تھے وہ کہے رہا تھا میں مرجاؤں تو میرے گھر والوں کو اطلاع نہیں کیجیے گا ان کے پاس میرے کفن دفن کے پیسے نہیں ہیں ہوسکے تو یہ موبائل فروخت کرکے اور چھے سو روپے کسی طرح گھر پہنچا دیجیے گا مجھے ایدھی کے حوالے کردیجیے گا اور گھر پر کہے دیجیے گا کہ وہ دوسرے شہر کمانے گیا ہے آپریشن کے دوران اس نے اس دنیا کو چھوڑ دیا آخر میں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں میں بہت جلد ملک چھوڑ دوںگا جہاں زندگیاں محفوظ نہیں مجھے ڈر ہے اللہ کا عذاب ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے گا جو بہت تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ دوسرا واقعہ میڈیا کے ذریعہ سب کو معلوم ہوا کہ سندھ میں پانچ بچوں کی ماں نے پھر باپ نے موت کو گلے لگا لیا وہ اپنے بچوں کی بھوک برداشت نہیں کر سکے ان کے پاس آٹا نہیں تھا اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے کئی دن کے بھوکے تھے۔ کون سی حکومت اور کون سی ریاست اور کون سے ادارے اور سیاسی جماعتیں سب پر سوالیہ نشان ہے اللہ کی بارگاہ میں کیا جواب دیں گے ابھی جب میں یہ تحریر لکھ رہاتھا تو ٹی وی پر یہ نیوز تھی کہ شہر کراچی میں تین بچے اسکول سے گھر آتے ہو ٹرک کی زد میں آگے اور ان کے گھر پر سوگ ہے کہاں ہیں حاکم کپڑے بیچنے والے روٹی دینے والے آپ لوگوں میں اتنی ہمت ہے کل اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوسکیں اور ان مظلوموں کا جواب دے سکیں آگے لکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی اپنی بات یہی کرتاہوں کہ اللہ ہمارے ملک پر رحم فرما ایسے حاکم عطا کر جو ہم سے محبت کریں اور ہم ان سے محبت کریں۔ آمین